Home » Scholars Life » حالات زندگی » شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی

شیخ الجامعہ حضرت آیت اللہ اختر عباس نجفی ؒ
شیخ الجامعہ حضرت آیت اللہ اختر عباس نجفی ؒ کا شمار پاکستان کے ان ممتاز ترین علمائے دین میں ہوتا ہے۔ جو ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ میں ترویج و تحفظ علوم دین کیلئے راہنما کی حیثیت سے یاد رہینگے اور جنکی زندگی علم اور عمل کے میدان میں آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو گئی۔

شیخ الجامعہ حضرت آیت اللہ اختر عباس نجفی ؒ
ابتدائی حالات:



علامہ اختر عباس نجفی سر زمین پنجاب کے ایک دور افتادہ علاقہ کوٹ ادو کے ایک نواحی گاؤں چاہ کورائی والا( منہاں شریف) میں پیدا ہوئے مشہور روایت کے مطابق آپکی پیدائش 1925ء میں ہوئی جبکہ بقول ان کے خانوادہ کے انہوں نے خود 1923ء بتائی تھی۔ آپ اصل بلوچ تھے کتب میں ملتا ہے کہ آپ کے جد امجد کورائی خان۔ امیر جلال خان کے بیٹے تھے جو اس علاقہ کی تاریخ میں بلوچ قوم کے ابتدائی فرد اور سربراہ تسلیم کئے گئے ۔ آپ کے والد صدیق محمد بلوچ اپنی ذاتی تحقیق سے مذہب شیعہ اختیار کر چکے تھے۔ یہ ان کی دی ہوئی تربیت ہی کا اثر تھا کہ ان کے تینوں بیٹے علم دین حاصل کرنے کیلئے متوجہ ہوئے۔ جن میں محمد بخش ، احمد بخش اور عابد حسین شامل تھے۔ محمد بخش بعد میں مولانا محمد بخش باقری کے نام سے مشہور ہوئے اور قم (ایران) میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے کر محرم 1409ہجری میں واصلِ بحق ہوئے۔ اور عابد حسین اپنی نوجوانی ہی میں دوران تعلیم نجف اشرف (عراق) میں رحلت فرماگئے اور وادی السلام میں مدفون ہیں۔ جبکہ احمد بخش 1939ء میں اختر عباس کے نام سے موسوم ہوئے۔
زندگی نامہ
شیخ الجامعہ حضرت آیت اللہ اختر عباس نجفی ؒ کا شمار پاکستان کے ان ممتاز ترین علمائے دین میں ہوتا ہے۔ جو ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ میں ترویج و تحفظ علوم دین کیلئے راہنما کی حیثیت سے یاد رہینگے اور جنکی زندگی علم اور عمل کے میدان میں آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو گئی۔
شخصیتحضرت علامہ اختر عباسؒ کی شخصیت ، بیک وقت و قار و دبدبہ اور شفقت و شگفتگی کا امتزاج تھی۔ وہ اسلاف کی نشانی تھے۔ علم و فضل کا پیکر تھے۔ دینی اور ملی امور میں ان سے رہنمائی اور استفادہ کیلئے پاکستان بھر سے علماء وقتا ً فوقتا ً حاضری دیا کرتے تھے۔ بیرون ملک سے بھی جب کوئی اہل علم تشریف لاتے تو زیارت کیلئے حاضر ہوتے۔ انہوں نے کبھی کوئی باقاعدہ عہدہ قبول نہ کیا خواہ اس کی پیش کش قومی وملی اداروں کی جانب سے ہوتی یا حکومت وقت کی طرف سے ۔ وہ اپنے علمی منصب کے پیش نظر یہ بہتر خیال کرتے تھے کہ کسی عہدہ کو حاصل کرنے کی بجائے سب کیلئے نقد و نظر کا فریضہ انجام دیں۔ اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ وہ دور اندیش ، صاحب ِ دلیل اور برجستہ شخصیت کے مالک تھے۔ ان کےمؤقف سے بعض اوقات کئی ذمہ دار افراد اختلاف بھی کرتے تھے مگر علامہ کے انتہائی علمی مرتبہ کے پیش نظر ہی نہیں بلکہ ان کے خلوص ِ نیت و عمل اور بزرگانہ شفقت کے باعث بھی احترام ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ انہوں نے ہر خاص و عام سے محبت اور پیار کا برتاؤ کیا۔ علامہ مرحوم کو راقم نے بار ہا خلوت میں بھی دیکھا، جلوت میں بھی۔ احباب میں بیٹھے ہوتے تو ہر موضوع پر گفتگو کرتے۔ خواہ کوئی علمی مسئلہ ہو یا روز مرہ کے حالات، حتیٰ کے کھیلوں کے بارے میں بھی ماہرانہ تبصرہ کرتے۔ آپ کی باتیں پندو نصیحت ہی نہیں ، برجستہ جملوں اور دلچسپ حکایتوں سے بھی مالا مال ہوتیں۔ عربی ، فارسی ، اردو اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ سرائیکی تو آپ کی مادری زبان تھی۔ جملہ زبانوں کے محاورں اور ضرب الامثال کا خوب استعمال کرتے۔ وہاں بیٹھا ہوا ہر شخص انہیں خود سے قریب پاتا۔ جب تنہا ہوتے تو مطالعہ کرتے رہتے۔ کبھی تلاوت قرآن حکیم فرماتے، کبھی علمی و ادبی کتب میں مستغرق ہوتے یا کتب کے تحریر و ترجمہ میں مشغول رہتے۔
آپ کے معمولات ، دل پذیر اصولوں سے عبارت تھے۔ نماز فجر کے بعد چائے کا ایک کپ اور آدھی خشک روٹی آپ کا ناشتہ تھا۔ جس کے بعد اس روز کے دروس کیلئے مطالعہ فرماتے اور بر وقت تیار ہو کر درس دینے کیلئے روانہ ہو جاتے۔ اگر سواری میسر نہ ہوتی تو پیدل ہی چل پڑتے۔ دہشت گردی کی پُر خوف فضا میں بھی کبھی خود حفاظتی کا تردد نہ کیا۔ 1998ءمیں مؤمن پورہ لاہور کے سانحہ میں بال بال زندہ بچ جانے کے فوراً بعد بغیر کسی خوف و ہراس اور حفاظتی انتظام کے جامعہ خدیجۃ الکبرؑیٰ پہنچے کیونکہ وہاں آپ کے درس کا وقت ہو چکا تھا ۔ ظہر کے بعد گھر واپسی ہوتی تو مختصر غذا تناول کرنے کے بعد کچھ دیر آرام کرتے۔ عصر کا وقت تلاوت قرآن کیلئے مخصوص تھا۔ نماز عصر کے بعد زیارت عاشور پڑھنا ان کا معمول تھا۔ اس کے بعد احباب ملاقات کیلئے حاضر ہوتے۔ نماز مغربین کے بعد ریڈیو سے پاکستان کی اور جملہ عالمی خبریں بھی باقاعدگی سے سنتے۔ پھر مطالعہ اور تالیف و ترجمہ میں رات گئے تک مصروف رہتے۔
علامہ اختر عباسؒ نہایت خود دار طبیعت کے مالک تھے۔ ساری زندگی علم و تدریس سے وابستہ رہے مگر آسودگی معاش کیلئے بھی محنت کی۔ ابتدائی تعلیم کے دوران لاہور میں ایک بٹن فیکٹری میں کام کیا ۔ بعد نجف ، لاہور اور قُم ، جہاں بھی گئے کتابوں کی دکان کھول کر گھر کا گزارہ کرتے رہے۔
آپ اپنی اولاد کی تربیت سے بھی غافل نہ ہوئے۔ خوش قسمتی سے آپ کی اہلیہ بھی نہایت دینی ماحول کی پروردہ تھیں۔ اپنے بچوں کو دین و اخلاق کے ساتھ اعلیٰ دنیاوی تعلیم سے بھی آراستہ کیا اور ان کو ہمیشہ محنت اور دیانت کا سبق دیا۔ پردہ کے اتنے قائل تھے کہ اپنی ہر صاحبزادی کے نکاح کے وقت داماد پر ہمیشہ پردے کی شرعی پابندی کی شرط عائد کی۔
علمی سفر:آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ ہی میں حاصل کی اور آبائی پیشہ کاشتکاری میں افراد خانہ کے معاون رہے لیکن 1938ء میں مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد علوم دین حاصل کرنے کا تہیہ کیا اور ملتان تشریف لے آئے۔جہاں مدرسہ باب العلوم میں داخلہ لے لیا۔ آپ کےابتدائی اساتذہ میں مولانا شیخ محمد یارؒ اور مولاسید زین العابدینؒ شامل تھے۔مدرسہ باب العلوم ملتان میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ اس دور میں علم و ادب کی ایک نابغہ روزگار ہستی استاذ العلماء مولانا سید محمد باقر چکڑالویؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انکے خاص شاگردوں میں شامل رہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اختر عباسؒ نے علم دین کو ہر پہلو سے کاملاً سمجھنے اور پرکھنے میں خوب تگ و دو کی۔ وہ 1940ء میں اہلسنت کے بریلوی مکتب فکر کی درسگاہ جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں مولانا حافظ مہر محمد اچھروی کے پاس اور پھر دیوبند مکتب فکر کے مولانا عبد الخالق کی خدمت میں نڑہال (نزد کبیر والا) حاضر ہوئے اور انہی کے ہمراہ دیوبند بھی تشریف لے گئے۔ جہاں مولانا اعزاز علی امروہوی اور شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے کسبِ فیض کیا۔ وہاں سے شدید علالت کے باعث وطن واپس آنا پڑا۔ صحت یابی کے بعد علوم جعفریہ کی ایک اور نادر ہستی استاذ العلماء آیت اللہ سید محمد یار شاہ نجفی ؒ کی خدمت میں جلال پور ننگیانہ میں حاضری دی۔ پھر استاذ العلماء سید گلاب علی شاہ نقویؒ کے پاس ملتان میں دولت علم سے فیض یاب ہوئے۔ حتیٰ کہ 1945ء میں بروز عید ِغدیر، عازم نجف اشرف (عراق) ہوئے۔
قیام در نجفیہ آپ کی علمی زندگی کا ایک یاد گار دور تھا۔ اُس دور میں جو علمی ہستیاں وہاں موجود تھیں ان میں سے بعض اس صدی کی سب سے نمایاں علمی ہستیاں شمار کی جا سکتی ہیں۔ علامہ اختر عباس ؒ نے وہاں اعلیٰ دینی علوم سے خود بھی اکتساب اور بعد میں وہاں آنے والوں کو مستفید بھی کیا۔ وہاں آپ کے اساتذہ میں آیت اللہ العظمیٰ شیخ مجتبیٰ لنکرانی ؒ، آیت اللہ العظمیٰ ابو القاس رشتیؒ، آیت اللہ العظمیٰ میرزا محمد باقر زنجانی ؒ اور آیت اللہ العظمیٰ سید ابو القاسم الموسوی الخوئی ؒ جیسے بلند پایہ فقہاء اور مراجعین شامل تھے۔ جن سے آپ نے فقہ و اصول فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ آپ حضرت آیت اللہ العظمیٰ خوئی ؒ کے چند خاص شاگردوں میں شامل تھےاور آپ کا تذکرہ حضرت موصوف وقتا ً فوقتا ً اچھے الفاظ میں فرمایا کرتے تھے۔ آیت اللہ شہید محمد باقر الصدر ؒ، آیت اللہ شہید میرزا علی غرویؒ اور آیت اللہ موسوی اردبیلی (جو بعد میں اسلامی جمہوریہ ایران کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس رہے) بھی آپ کے ہم درس تھے۔
نجف اشرف ہی میں آپ مرجعِ دَوراں حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم طبا طبائی ؒ کے ساتھ بحثیت اردو ترجمان کے وابستہ رہے۔ یہ امر بعد مولانا صادق علی نجفی مد ظلہ سر انجام دیتے رہے۔
علامہ اختر عباسؒ 4 رمضان 1368ہجری کو قیام نجف ہی میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ آپکی اہلیہ محترمہ نجف کے معروف عالم دین شیخ علی کشمیری نجفی ؒ کی صاحبزادی ہیں۔ آپ کا نکاح مسنون آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم طباطبائی ؒ اور آیت اللہ العظمیٰ محمد تقی آلِ راضیؒ نے پڑھا نکاح نامہ آیت اللہ العظمیٰ جواد تبریزی ؒ نے تحریر کیا۔ معروف جید عالم دین آْقا سید طیب جزائری مدظلہ آپ کے ہم زلف ہیں۔
شادی خانہ آبادی کے بعد علامہ اختر عباس نے فکر معاش سے آسودگی کیلئے نجف ہی میں باب القبلہ کے قریب کتابوں کی دکان کھولی۔ علامہ کے فرزند ناصر محمد خان راوی ہیں کہ آپ کے استاد آیت اللہ العظمیٰ لنکرانیؒ جب کبھی اس راہ سے گزرتے تو کافی دیر وہاں تشریف رکھتے۔ ان کا نجف میں بہت احترام تھا۔ ایک بار علامہ صاحب کی جانب سے تشکر و استفسار پر فرمایا کی میں یہاں ا س لئے ٹھہرتا ہو ں کہ عوام جان لیں کہ اس دکان کا مالک کوئی عام شخص نہیں بلکہ صاحب علم انسان ہے۔ درجہ ء اجتہاد پر فائز ہونے کے بعد آپ نجف اشرف ہی میں درس دینے لگے۔
تاسیس جامعۃ المنتظر1954ء میں علامہ اختر عباس ؒ زیارت معصومہ ؑ کیلئے قم پہنچے تو مرجعِ عصر آیت اللہ العظمیٰ سید حسین برو جردیؒ کی خدمت میں حاضری دی۔ وہاں لاہور سے تعلق رکھنے والے کچھ اصحاب یہ درخواست لے کر پہنچے ہوئے تھے کہ ہمارے ہاں ترویج علوم محمد ؐ و آل ؑ محمد ؐ کیلئے روحانی امداد فرمائے۔ آیت اللہ بروجردیؒ نے علامہ اختر عباس ؒ کو لاہور میں جا کر مدرسہ قائم کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ لاہور میں ایک انتہائی مخلص و مخیر شخصیت حاجی شیخ محمد طفیل مرحوم نے سہم امام علیہ السلام کی رقم سے مالی امداد کی اور چند دیگر احباب نے ابتداء میں ایک مکان کا انتظام کیا ۔ جس کے بعد حسینیہؑ ہال اندرون موچی دروازہ پھر وسن پورہ میں (باقاعدہ) جامعتہ المنتظر کی بنیاد رکھی گئی۔ قدیم احباب لاہور شاہد ہیں کہ علامہ صاحب نے یہاں باقاعدہ نماز با جماعت اور دروس و مجالس کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے بڑھ چڑھ کر تعاون کیا اور ایک ایسی روح بیدار ہوئی جو جامعہ کو موجودہ صورت اور مقام تک لے آئی۔ وہیں پر ملی فلاح کیلئے بارہ افراد کے صیغہ ء اخوت والا واقعہ پیش آیا جس میں علامہ صاحؒب کے علاوہ گیارہ اور اصحاب شامل تھے۔ اسی دوران میں آپ نے لاہور سےالمنتظر کے نام سے پندرہ روزہ جریدہ شائع کرنےکا آغاز کیا۔ تاکہ عوام میں دینی فکر کو اجاگر کرنے کے ساتھ تازہ علمی و ملی سر گرمیوں سے آگاہی بھی دی جا سکے۔ اسی عرصہ میں آپ نے علماء اور زعمائے ملتِ شیعہ کو خدمت دین کیلئے متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1964ء تک دس سال آپ نے جامعہ میں بطور مدرّس اعلیٰ خدمات انجام دیں اور پھر واپس نجف اشرف تشریف لے گئے۔ جہاں تین سال قیام کیا۔
قُم میں آمداسی زمانہ میں قم مقدس (ایران) میں اس وقت کے آیت اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم شریعتمداریؒ نے ایک جامع علمی ادارہ دار التبلیغ اسلامی کے نام قائم کیا۔ علامہ صاحبؒ بتاتے تھے کہ ایک مرتبہ علمائے ایران جن میں آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہریؒ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازیؒ مد ظلہ اور آیت اللہ جعفر سبحانی مد ظلہ شامل تھے۔ نجف اشرف تشریف لائے اور آپ کے ساتھ ملاقات میں آقائے شریعتمداریؒ کی طرف سے قم آنے کی دعوت دی۔ تاکہ دار التبلیغ کے شعبہ اردو میں معاونت لی جا سکے۔ قم میں آپ نے اپنی ذمہ داری سنبھالی تو آقائے موصوف کے دروس خارج میں بھی شرکت کی اور پہلی بار دروس کو ٹیپ ریکارڈ کرنے کا اہتمام کیا۔
پاکستان واپسی1974ء میں آپ پاکستان تشریف لائے تو کوٹ ادو میں دار التبلیغ اسلامی جامعتہ الشیعہ کی بنیاد رکھی اور اپنے آبائی علاقے کا حق اس طرح علمی و دینی خدمت کے ذریعے ادا کیا۔ علامہ بتایا کرتے تھے کہ اس مدرسہ کیلئے دار التبلیغ اسلامی قم کی کسی قسم کی معاونت شامل نہیں تھی۔ 1987ء میں وہاں ایک شاندار اور وسیع مسجد کی بنیاد بھی رکھی جس میں ہزاروں افراد کی گنجائش ہے۔ شروع میں لوگ متعجب تھے کہ اتنے نمازی کہاں سے جمع ہونگے لیکن اب یہ مسجد نماز جمعہ، ماہ رمضان المبارک اور عیدین کی موقعوں پر لو گوں سے پُر ہو جاتی ہے۔ اس کی تعمیر ہنوز تشنہ ء تکمیل ہے۔
ملی اور سیاسی صورتحالایک ذمہ دار عالم دین کی حیثیت سے علامہ اختر عباس ؒ نے کبھی بھی اپنے فریضہ ء شرعی میں تساہل نہیں برتا۔ تحفظ عقائد کا معاملہ ہو یا ملت کے تشخص کا یا ملک میں نفاذ اسلام کا ۔ علامہ مرحوم نے اپنی صوابدید کے مطابق اپنا کردار بھر پور اور بے باکانہ ادا کیا ۔ سن ساٹھ کے عشرے میں جب شیخی نظریات کو شیعیت میں مدغم کرنے کی کو شش ہوئی تو محراب و منبر کی سچی پاسداری کیلئے علماء نے اپنی آواز بلند کی۔ حضرت علامہ مفتی جعفر حسینؒ، مولانا محمد یار شاہ نجفی ؒ، مولانا گلاب علی شاہؒ، مولانا محمد حسین نجفی مد ظلہ ، مولانا حسین بخش آف جاڑا ؒ، اور مولانا حافظ سیف اللہ جعفری ؒ کے ساتھ علامہ اختر عباس ؒ کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ 1977ء میں پاکستان عام انتخابات کا غلغلہ ہوا تو اسلامی فکر رکھنے والی قوتوں نے نظام مصطفی ؐ کے عنوان سے تحریک کی صورت اختیار کر لی۔ علامہ اختر عباسؒ نے اس کی تائید کرتے ہوئے مفتی محمود مرحوم کے ساتھ کوٹ ادو میں جلسہ عام سے خطاب بھی کیا۔ اس سے پہلے تحریک ختم نبوت میں بھی انہوں نے نہایت سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر کے اسلامی نظام حکومت کیلئے ظاہری کاروائیاں شروع کیں تو شیعہ قوم نظر انداز کی جانے لگی۔ مفتی جعفر حسین مرحوم نے جو دینی و ملی و ملکی خدمات میں ہمیشہ نمایاں رہے تھے اور 1951ء کے مشہور بائیس نکاتی اعلان پر دستخط بھی کر چکے تھے، 1979ءمیں جنرل ضیا ء الحق کی اسلامی مشاورتی کونسل سے استعفیٰ دے دیا۔ جس کے بعد ملت شیعہ جعفریہ میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی شیعہ قوم کے نمائندہ علماء اور زعماء ، خواص و عوام نے بھکر میں قصر زینبؑ کے مقام پر ایک کنونشن منعقد کیا جہاں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ وجود میں آئی اور مفتی جعفر حسین مرحوم کو قائد ملت جعفریہ کا درجہ دیا گیا۔ اس فیصلہ میں علامہ اختر عباس مرحوم پیش پیش تھے۔ بعد میں بھی جب کبھی ملت پر کوئی مشکل وقت آن پڑا، علامہ کی خدمات نمایاں رہیں۔ سانحہ کوئٹہ کے موقع پر جنرل ضیاء الحق نے علامہ مرحوم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو اس ملاقات میں بھی علامہ نے شیعہ مؤقف کا بھرپور طریقے سے اظہار کیا۔ علامہ صاحب کی زندگی کے آخری ایام میں علماء کمیٹی کی طرف سے ایک اعلامیہ سامنے آیا جو ملت شیعہ کیلئے متوازن نہیں تھا۔ اس پر علامہ نے شدید ناراحتی کا اظہار کرتے ہوئے علماء کو متوجہ کیا جس کے بعد کمیٹی کی ہیئت ہی تبدیل کر دی گئی۔
انقلاب اسلامی ایراناس صدی کا سب سے بڑا اسلامی انقلاب 1979ءمیں ایران میں وقوع پذیر ہوا۔ جس کے نتیجہ میں وہاں قدیمی بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ انقلاب دنیا بھر میں جہاں غلامی اور آمریت کے خلاف تحریکوں میں رہنما ثابت ہوا، وہیں عالمِ اسلام کے تشخص کیلئے اس کا کردار قابل فخر رہا۔ علامہ مرحوم چونکہ ان دنوں میں قم سے پاکستان تشریف لائے تھے لہذا عوام الناس کے سامنے اس انقلاب کا بھر پور مثبت طریقے سے تعارف پیش کیا۔ اور جگہ جگہ انہوں نے اپنی تقاریر میں اسلامی انقلاب کے مؤقف کو اجاگر کیا۔ نجف اشرف میں جب رہبر انقلاب حضرت امام خمینیؒ جلا وطنی کی زندگی گذار رہے تھے تو علامہ موصوف کے ان سے نزدیکی تعلق کے باعث ایران میں شاہ کی بد نامِ زمانہ پولیس (ساداک) نے آپ کی قم آمد پر آپ کیلئے مشکلات پیدا کیں اور پر سش بھی کی۔ آپ اپنی زندگی کے آخری ایام تک انقلاب اسلامی ایران کی مخالفت کو حرام سمجھتے تھے۔ اس بات پر ان کے متعدد احباب گواہ ہیں۔
کلیۃ القضاء کا قیام شیخ الجامعہ مرحوم سیاسی آگاہی کے ساتھ ساتھ اپنی علمی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوئے بلکہ پاکستان میں جب حکومت نے اسلامی نظام کے نفاذ کا عندیہ دیا تو آپ نے علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ کے ساتھ مل کر فقہ جعفریہ کے مطابق شرعی عدالتوں کے جج کے منصب کیلئے موزوں اور اہل افراد تیار کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس کیلئے سیٹھ نوازش علی نے بھر پور مالی معاونت کی۔ اس طرح 1982ءمیں لاہور میں کلیۃ القضاء (The Faculty of Islamic Laws)قائم کی گئی۔ آپ نے اس کے نگران اور مدرس اعلیٰ کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔ ابتداء میں پورے پاکستان سے تیرہ فاضل ترین طلباء کو خالصتاً ان کی علمی اور ذہنی استعداد کو جانچ کر داخلہ دیا گیا۔ کورس کی مدت دو سال مقرر ہوئی۔ طلباء کو قضاوت، قصاص، شہادات اور حدود تعزیرات کے بارے میں مکمل تعلیم دی جاتی تھی۔ علامہ نے کئی کورس اپنے طلباء کو مکمل کروائے۔ آپ کے دروس اپنے بیان ، تشریح، دلیل اور کاملیت میں خود اپنا جواب تھے۔ ان دروس کو باقاعدہ ویڈیو ریکارڈ کیا گیا ۔ علامہ نے چند سال قبل ایک بار راقم کو بتایا کہ رسائل کا درس شروع سے آخر تک مکمل طور پر برِ صغیر میں پہلی بار شاید انہوں نے دیا اور اس کے کئی دورے کروائے۔ کلیۃ القضاۃ میں ان کے درس و تدریس کا سلسلہ 11 اپریل 1999ءتک جاری رہا۔
دخترانِ ملت کی تربیتیہ دور تہذیب اور اخلاق کے لحاظ سے ابتلاء کا دور ہے اور سامان لہو و لعب، فکر انسانی کی غفلت کیلئے فراواں ہے۔ نوجوان نسل کسی بھی قوم و ملت کیلئے مستقبل کی امید ہوتی ہے۔ ایک صاحب فکر نے درست کہا تھا، آپ مجھے اچھی مائیں دیں میں آپ کو اچھی نسل کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت شیخ الجامعہؒ نے اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے اس طرف توجہ فرمائی اور ملت شیعہ کی بیٹیوں کیلئے دینی تعلیم کی ضرورت کو خصوصی اہمیت دی۔ انہوں نے 1994ءمیں لاہور میں جامعہ الخدیجۃ الکبرؑیٰ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ اس مقصد کیلئے اپنی ذاتی توجہ اور آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی مد ظلہ کے تعاون سے ماڈل ٹاؤن لاہور کے نزدیک ایک مکان کرایہ پر حاصل کیا اور یکم مئی 1994ءکو وہاں درس کا آغاز کر دیا۔ اس مدرسہ میں نصاب، درس نظامی مقرر کیا گیا جو تمام حوزہ ہائے علمیہ میں مروج ہے۔ شروع میں بیس طالبات تھیں جن کی رہائش کا انتظام بھی کیا گیا اور اس کو یقینی تحفظ فراہم کرنے کیلئے علامہ مرحوم نے خود وہاں رہائش اختیار کی۔ الحمد للہ کہ اب طالبات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ شیخ الجامعہؒ مرحوم نے اس درس کی برقرار کیلئے اپنے وصیت نامہ میں بھی خواہش کا اظہار کیا۔
تلامذہدور حاضر کے بہت سےجید علماء کرام کو حضرت علامہ کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ ان میں چند ایک کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں۔ آیت اللہ العظمیٰ حافظ بشیر حسین نجفی مد ظلہ (مرجع تقلید۔ نجف اشرف) محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم۔ حضرت علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی مد ظلہ (پرنسپل حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور)۔ وکیلِ آل محمدؐ حضرت شہید علامہ غلام حسین نجفی (لاہور)۔ حضرت علامہ شیخ محمد شفیع نجفی مد ظلہ (لاہور)۔ مولانا شہید سجاد حسین خان (سیالکوٹ)۔ مولانا ظفر عباس مد ظلہ ( متحدہ عرب امارات)۔ مولانا احمد حسین نوری مد ظلہ (اسلام آباد)۔ مولانا سید حسن ظہیر نجفی مد ظلہ (لاہور) ۔ مولانا شہید غلام رضا ناصر نجفی( جوہر آباد) ۔ غرض اکثر علماء بذاتِ خود یا بالواسطہ آپ کے شاگرد رہے۔
تالیفاتآپ نے طبع زاد کتب تحریر کرنے کی بجائے تراجم کی طرف زیادہ توجہ مبذول کی۔ ایک بار راقم نے استفسار کیا تو فرمانے لگے۔ عربی اور فارسی میں اتنا بڑا علمی ذخیرہ موجود ہے کہ نئی کتاب تصنیف کرنے کی بجائے انہی کا اردو ترجمہ کر دیا جائے تو کافی ہے۔
بہت مدت پہلے خاتم المحدثین آقا عباس قمی ؒ کی کتاب’’مفاتیح الجنان‘‘ کا اردو ترجمہ کیا تھا۔ جس کو بہت قبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی مؤمنین اس کو حرز جان بنائے رکھتے ہیں۔ حضرت علامہ کی بہت سی کاوشیں منظر عام پر آچکی ہیں اور کچھ مسودات ہنوز تشنہء اشاعت ہیں۔ شائع شدہ چند کتب درج ذیل ہیں :فضائل پنج تن پاک ؑ (از آیت اللہ مرتضیٰ فیروز آبادی) تین جلدیں۔آموزشِ دین ( از آیت اللہ ابراہیم امینی) چار دجلدیں۔ فاطمۃ الزہراؑ اسلام کی مثالی خاتون ( از آیت اللہ ابراہیم امینی) ۔ قیام مختار ( از آیت اللہ اردکانی)۔ خود سازی ( از آیت اللہ ابراہیم امینی)۔
علم فقہ اور علم قضاوت پر آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی مد ظلہ کی تحریر کردہ مندرجہ ذیل کتب کا ترجمہ کیا :کتاب الدیات۔ کتاب الحدود و التعزیرات۔ کتاب الشہادات۔ کتاب القضاء(دو جلدیں)۔ کتاب القصاص ( دو جلدیں)۔
اس کے علاوہ تقریباً 800 ویڈیو کیسٹیں اور ہزاروں کی تعداد میں آڈیو کیسٹیں ان کی دروس پر مشتمل ریکارڈ ہو چکی ہیں اور جامعۃ المنتظر کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ مجالس عزا، تقاریر او ر دیگر گفتگوؤں پر مشتمل کیسٹ ریکارڈ ز اس کے علاوہ ہیں۔
خطابت
تحریر کے ساتھ ساتھ علامہ صاحب کی خطابت بھی منفرد تھی۔ ان کا اپنا ایک اسلوب تھا۔ اُس میں جہاں دقیق علمی نکتے بیان ہوتے وہاں تاریخی واقعات کا حوالہ بھی ہوتا ۔جہاں کسی معاملہ میں شدت اختیار کرتے وہاں برجستہ مزاح سے سامعین کو محظوظ بھی فرماتے۔ مصائب بیان کرتےتو لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی ۔ پاکستان ہی میں نہیں۔ بلکہ بیرون ملک بھی متعدد مقامات پر مجالس سے خطاب کیا۔ لیکن کبھی مشاہرہ طے نہیں کیا۔ اگر کوئی خدمت کرتا تو اس کو اپنے واجبات اور سہم امام ؑ ادا کرنے کی نصیحت کرتے۔ ایسی رقوم کو ترویج علوم دین کیلئے استعمال کرتے۔ بعض مثالیں مستحقین کی مخفی امداد کرنے کے بارے میں بھی موجود ہیں۔ اگر مجلس کے بعد کوئی ہدیہ نہ ملتا تو اصرار نہ کرتے۔ ایک بار بتایا کہ وہ اور مفتی جعفر حسین مرحوم کسی دور افتادہ دیہات میں ایک مجلس سے خطاب کیلئے تشریف لے گئے اور بانی مجلس کے زبانی شکریہ کے بعد دونوں بزرگ حضرات کی واپسی ہوئی۔ زادِ راہ کی قلت نے مشکل پیدا کی مگر پھر بھی کبھی مشاہرہ طے نہ کیا۔
وضع داری کا یہ عالم تھا کہ تقریباً چالیس سال قبل وزیر آباد اور سیالکوٹ میں عشرہ محرم الحرام کی مجالس پڑھنا شروع کیں اور پھر ساری زندگی عشرہ محرم وہیں پڑھا۔ تقریر کی خوبی یہ کہ بلا تفریق ِ مذہب ہزاروں افراد ان کی مجالس میں شرکت کرتے اور متاثر ہوتے ۔ ان شہروں کے باسیو ں نے ہر برس ان کا اتنظار کیا اور انہی شہروں میں عشرہ محرم پڑھتے اور حسین ؑ حسین کرتے آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
آخری ایامحضرت علامہؒ 1994ءسے عارضہ قلب میں مبتلا تھے جو روز بروز شدت اختیار کرتا گیا ۔ ان کی عالی ہمتی کا یہ عالم تھا کہ باوجود کہ پیرانہ سالی اور مرض کے اپنی معمول کی مصروفیات کو قطعا ترک نہ کیا۔ جناب امیر المؤمنینؑ کے قول ’’ مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے رہو‘‘ کے بمصداق انہوں نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور مجالس عزاء سے بھی خطاب فرماتے رہے۔ ملیّ و قومی امور کی طرف بھی متوجہ رہے۔ حتیٰ کہ زندگی کے آخری تین برس باقاعدگی سے زیارات ِ مقدسہ کیلئے عراق و ایران تشریف لے جاتے رہے۔ ایک بار ناسازی طبع کے باعث مشہد ومقدس (ایران) کے ایک ہسپتال میں زیر علام بھی رہنا پڑا۔ آخری دو ماہ میں مرض انتہا تک پہنچ گیا اور اس مرتبہ عشرہ محرم الحرام پڑھنے سے بھی خود کو معذور سمجھ رہے تھے لیکن اہلیان وزیر آباد و سیالکوٹ ک انتہائی اصرار پر وہاں تشریف لے گئے۔ محرم کی ابتدائی مجالس ہی میں آپ نے اس امر کی نشاندہی کر دی تھی کہ شاہد میں یہ عشرہ بھی پورا نہ کر سکوں۔
رحلت اور تدفینحضرت علامہ اختر عباسؒ آٹھ محرم الحرام 1420ہجری کی شام سیالکوٹ میں مجلس عزا سے خطاب کرنے کے بعد وزیر آباد تشریف لے گئے اور نویں محرم کی شب وہاں مجلس عزا سے خطاب کیا۔ یہ ان کی زندگی کی آخری مجلس تھی۔ وزیر آباد ہی میں نو محرم الحرام (26 اپریل 1999ء بروز دو شنبہ) کی صبح نماز فجر کیلئے وُضو کرتے ہوئے آخری مسح کے دوران حرکت قلب بند ہوگئی۔ اور اپنی جان، جان ِ آفریں کے سپرد کر دی۔
موت کے بعد آپ کے چہرے کی مسکراہٹ نفس مطمئنہ کے مقام اعلیٰ علیین کو رجوع کرنے کا اشارہ دے رہی تھی۔
نشان مردِ مؤمن بہ تو گویم چو مرگ آید، تبسم بر ابِ اوست (اقبالؒ)
علامہ مرحوم کے چاہنے والوں نے جسد خاکی کو وزیر آباد اور سیالکوٹ میں نماز جنازہ ادا کئے بغیر لاہور نہ آنے دیا۔ ہزاروں زن و مرد نالہ ہائے الم بلند کر رہے تھے۔ وزیر آباد نماز جناہ مولانا موسیٰ بیگ مد ظلہ نے اور سیالکوٹ میں مولانا فیض کرپالوی نے پڑھائی۔ اور یوں ہر دو مقامات پر ’’الوداع‘‘الوداع‘‘ کی دلسوز صداؤں کے ساتھ اپنے مربی کو رخصت کیا گیا۔ سیالکوٹ میں نماز جنازہ عین اس وقت اور اسی مقام پر ادا کی گئی جہاں سالہا سال سے حضرت علامہ خطاب فرمایا کرتے تھے اور اس روز بھی آخری خطاب کرنے والے تھے۔ لاہور میں آپ کے گھر سے جامعۃ المنتظر تک پوری راہ سوگوار تھی۔ روز عاشوراء حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور میں آپکی نماز جنازہ علامہ حافظ ریاض حسین نجفی مد ظلہ کی اقتداء میں ادا کی گئی۔ جس میں ہر طبقہ زندگی سے ہزاروں سوگواروں نے شرکت کی۔ آخری دیدار کیلئے میت مرکزی مقام پہ رکھی گئی تو لوگ اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے۔ پھر حضرت علامہ کے کمرہ درس میں آپکی طالبات اور دیگر خواتین نے اپنے روحانی پد ر بزرگوار کی الوداعی مسکراہٹ کی زیارت کی۔ جس کے بعد ذکر و فکرِ حسینؑ کے مبلغ اور اس دور میں ملک و ملت کے سب سے جید فقیہ کو عین اذان ظہر عاشور کے وقت جامعۃ المنتظر لاہور ہی میں آسودہ ء لحد کر دیا گیا۔
داستانِ کربلا کے ترجماں، تجھ پر سلام اختر عباس! عظمت کے نشان تجھ پر سلام
اظہار ِ تعزیتمیں آپ کے والد گرامی آیت اللہ (اختر عباس) کی رحلت پر تعزیت پیش کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے ان کیلئے جنت الفردوس اور آپ کیلئے صبر(جمیل) اور اجر (عظیم) کا خواستگار ہوں۔ یقیناً ہم اللہ کیلئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
(آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی مد ظلہ)
اس بلند ہمت و دور اندیش مرحوم نے جامعۃ المنتظر کے عنوان سے جو پودا لگایا، آج وہ تناور ہو چکا ہے اور اس کے اثرات و برکات پورے پاکستان میں پھیل گئے ہیں اور اس دور میں انہوں نے جس شدید ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جامعہ خدیجۃ الکبرؑیٰ کی بنیاد رکھی ( اس سے ظاہر ہے کہ ) وہ لمحہ بھر کیلئے مقام تعلیم و تربیت سے جدا نہ ہوئے اور اپنے مقصد کی راہ میں مشکلات اور سختیوں کے ہجوم سے بھی کبھی نا امید نہ ہوئے۔
(آیت اللہ العظمیٰ سید حسن طاہری خرم آبادی مد ظلہ)
مولانا مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن، ایک دبستان تھے۔ وہ بیک وقت مدرس ، مقرر اور مؤلف تھے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا اور جینا و مرنا سرکار محمد ؐ و آلہ ؑ محمدؐ علیہم السلام کے علوم کی نشر و اشاعت تھی جسے وہ زندگی کے آخری لمحہ تک انجام دیتے رہے۔
(آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین نجفی مد ظلہ )
حضرت آیت اللہ استاذی و استاذ العلماء آقائی الشیخ اختر عباس صاحب قبلہ مرحوم ہمارے ناصح اور شفیق اساتذہ میں سے بزرگترین استاذ تھے۔ سرکار مرحوم پاکستان میں علم اصول الفقہ اور فقہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
(حجتہ الالسلام حضرت مولانا ملک اعجاز حسین نجفی مد ظلہ )
حوالہ زندگی نامہ شیخ الجامعہ

تحریر: ن ، ع، شیرازی
تصاویر



(علامہ مرحوم کی تقاریر کے لئے یہاں کلک کریں)

سوشل میڈیا پر شئیر کریں: