Home » Scholars Life » حالات زندگی » شہید سید عارف حسین الحسینی

شہید علامہ السید عارف حسین الحسینی (رح)
مختصر حالات: سید عارف حسین حسینی پاکستان کے مشہور شیعہ عالم، تحریک جعفریہ پاکستان کے صدر اور شیعہ قوم کے محبوب قائد تھے۔ آپ نجف اور قم کے حوزات علمیہ میں وہاں کے مشہور فقہاء من جملہ امام خمینی کے شاگردوں میں سے تھے۔ علامہ عارف حسین حسینی پاکستان میں عوام کے مذہبی، ثقافتی اور عبادی ضروریات فراہم کرنے کے علاوہ صحت اور معیشت کے لحاظ سے بھی ان کے مسائل کو حل کرتے تھے۔ وہ 5 اگست سنہ انیس سو اٹھاسی کو پشاور میں اپنے مدرسے میں صبح کی نماز کے بعد نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرگئے۔

تعارف نامہ
سید عارف حسین حسینی (1946-1988ء) پاکستان کے مشہور شیعہ عالم، تحریک جعفریہ پاکستان کے صدر اور شیعہ قوم کے محبوب قائد تھے۔ آپ نجف اور قم کے حوزات علمیہ میں وہاں کے مشہور فقہاء من جملہ امام خمینی کے شاگردوں میں سے تھے۔ علامہ عارف حسین حسینی پاکستان میں عوام کے مذہبی، ثقافتی اور عبادی ضروریات فراہم کرنے کے علاوہ صحت اور معیشت کے لحاظ سے بھی ان کے مسائل کو حل کرتے تھے۔ وہ 5 اگست سنہ 1988 کو پشاور میں اپنے مدرسے میں صبح کی نماز کے بعد نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرگئے۔
نسب اور مولدسید عارف حسین بن سید فضل حسین 25 نومبر 1946 عیسوی کو پاکستان کے شمال مغرب میں واقع شہر پاراچنار کے نواحی گاؤں پیواڑ کے ایک مذہبی، علمی اور سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی گاؤں پیواڑ پاک ۔افغان سرحد پر واقع ہے جس میں "غُنڈی خیل"، "علی زئی" اور "دوپر زئی" نامی قبائل آباد ہیں۔ سید عارف حسینی پختونوں کے طوری قبیلے کی شاخ "دوپرزئی" سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب شاہ شرف بو علی قلندر بن سید فخر ولی تک پہنچتا ہے جن کا نسب شرف الدین بوعلی شاہ قلندر ابن ابوالحسن فخر عالم تک پہنچتا ہے۔ بو علی شاہ کا مدفن ہندوستان کا شہر پانی پت اور فخر عالم کا مدفن پاراچنار کے نواحی گاؤں کڑمان ہے۔ چونکہ ان کا سلسلۂ نسب حسین الاصغر ابن علی بن الحسین(ع) تک پہنچتا ہے، لہٰذا ان کا خاندان "حسینی" کے عنوان سے مشہور ہے۔[1] ان کے آباء و اجداد ـ جن میں سے متعدد افراد علمائے دین اور مبلغین میں سے تھے ـ اسلامی معارف و تعلیمات کی ترویج کی غرض سے پیواڑ اور قریبی علاقوں میں سرگرم عمل رہے ہیں۔
حالات زندگیسید عارف حسین حسینی نے اپنی طفولیت اپنے آبائی گاؤں میں گذارا جہاں انہوں نے قرآن کریم اور ابتدائی دینی تعلیمات اپنے والد کے حضور مکمل کرلیں۔ ان کے والد بھی علماء میں سے تھے۔ بعدازاں انہوں نے اسکول میں داخلہ لیا اور پرائمری اور متوسطہ کے بعد پاراچنار کے ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ سنہ 1964 میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد علوم آل محمد سے روشناس ہونے کیلئے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں داخلہ لیا جہاں انہوں نے "لقمانخیل" کے گاؤں "یوسف خیل" کے رہنے والے حاجی غلام جعفر سے کسب فیض کا آغاز کیا اور مختصر سے عرصے میں مقدمات (ادبیات عرب) مکمل کر لئے۔ آپ کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ فارسی، عربی اور اردو پر بھی عبور حاصل تھا ۔[2]
نجف میںشہید علامہ سید عارف حسین حسینی سنہ 1967 میں نجف اشرف مشرف ہوئے اور نج اور بعدازاں قم میں عربی ادب کے نامور استاد مدرس افغانی کے ہاں ادبیات عرب کے تکمیلی مراحل طے کئے اور ساتھ ساتھ مختلف اساتذہ کے ہاں فقہ اور اصول فقہ کے اعلیٰ مدارج طے کئے۔
امام خمینی(رح) سے واقفیتعلامہ سید عارف حسین حسینی نجف میں آیت اللہ مدنی کے حلقۂ درس میں شریک ہوئے اور ان کے توسط سے امام خمینی کی شخصیت اور کارناموں سے واقف ہوئے۔[3]۔[4] سنہ 1973 عیسوی میں انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام میں عراق کی بعثی حکومت نے انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اور کچھ عرصہ بعد ملک بدر کردیا۔
وطن واپسی اور شادیوطن واپسی کے بعد تقریبا 10 مہینوں تک پاراچنار میں تبلیغ دین میں مصروف رہے۔ انھوں نے اسی عرصے میں ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔[5]
قم میں حصول علم کا تسلسلسنہ 1974 عیسوی میں انھوں نے دوبارہ اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے اور نجف جانے کا فیصلہ کیا لیکن حکومت عراق نے انہیں ویزا دینے سے انکار کیا؛ چنانچہ وہ اسی سال قم روانہ ہوئے اور حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ شہید استاد مرتضی مطہری، آیات عظام مکارم شیرازی، وحید خراسانی، میرزا جواد تبریزی، محسن حرم پناہی اور سید کاظم حائری سے فلسفہ، کلام، فقہ، اصول اور تفسیر جیسے علوم میں کسب فیض کیا۔
ایران سے ملک بدریقم میں رہائش اور حصول علم کے دوران وہ پہلوی حکومت کے خلاف علماء اور عوام کے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرتے تھے لہذا انہیں گرفتار کیا گیا۔ انہیں ایک ضمانت نامے پر دستخط کرنے کیلئے کہا گیا کہ "وہ مظاہروں اور انقلابی قائدین کی تقاریر میں شرکت نہیں کریں گے اور انقلابی راہنماؤں سے کوئی رابطہ نہیں رکھیں گے" لیکن انہوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کیا چنانچہ جنوری سنہ 1979 عیسوی میں انہیں ایران چھوڑ کر پاکستان واپس جانا پڑا۔
وطن واپسیوہ سنہ 1979 سے 1974 عیسوی تک مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں تدریس میں مصروف رہے۔ وہ جمعرات کے دن مدرسہ جعفریہ سے پشاور جاکر جامعۂ پشاور میں اخلاق اسلامی کی تدریس کیا کرتے تھے۔[6]
پاکستان میں امام خمینی کے نمائندےسید عارف حسین حسینی پاکستان میں امور حسبیہ اور وجوہات شرعیہ میں امام خمینی کے نمائندے اور وکیل تھے۔ [7]
شہادتعلامہ سید عارف حسین حسینی مورخہ 5 اگست سنہ 1988 عیسوی کو اپنے مدرسے "دارالمعارف الاسلامیہ میں نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرگئے۔
امام خمینی(رح) کا پیغامامام خمینی نے شہید کے جنازے میں شرکت کے لئے ایک وفد پاکستان روانہ کیا اور ان کی شہادت کے موقع پر پاکستان کے علماء اور قوم و ملت کے نام ایک مفصل پیغام جاری کیا،[8] اور انہیں اپنا "فرزند عزیز" قرار دیا۔[9] ادھر پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے بھی ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پشاور جاکر شہید کے جنازے میں شرکت کی۔ آیت اللہ جنتی بھی ایک اعلی سطحی ایرانی وفد کی سربراہی میں پشاور پہنچے اور نماز جنازہ کی امامت کی۔ بعدازاں شہید کی میت ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کے آبائی شہر منتقل ہوئی اور ان کی تدفین ان کے آبائی گاؤں پیواڑ میں ہوئی۔
متعلقہ مآخذ
• تحریک جعفریہ
حوالہ جات
1. رضاخان، سفیر نور، ص23۔
2. نقوى، تذكره علماى امامیہ پاكستان، ص 155، 159۔
3. رضا خان، سفیر نور، ص33۔
4. نقوى، تذکرہ علمای پاکستان، ص155۔
5. رضا خان، سفیر نور، ص44۔
6. رضا خان، سفیر نور، ص56ـ57۔
7. صحیفہ امام ج14 ص506، موضوع: مجوز استفاده از سهم امام (ع) در امور تبلیغات اسلامی در پیشاور پاکستان؛ مخاطب: سید عارف حسین، حسینی۔
8. صحیفہ امام ج 21، ص 119۔
9. صحیفہ امام ج 21، ص 121۔
مآخذزندگی نامہ علامہ شہید عارف حسین الحسینى از ولادت تا شہادت، تہیہ كنندہ: مؤسسہ شہید الحسینى، قم: نشر شاہد، 1369ہجری شمسی۔
تسلیم رضاخان، سفیر نور، لاہور 1998 عیسوی.
حسین عارف نقوى، تذكرہ علماى امامیہ پاكستان، ترجمہ محمدہاشم، مشہد 1370 ہجری شمسی۔
صحیفہ امام، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1378 ہجری شمسی۔
عارف حسینی کی شہادت پر امام خمینی کے پیغام سے اقتباسحجۃ الاسلام جناب آقائے سید عارف حسین حسینی ـ جو اسلام اور انقلاب کے ایک وفادار حامی، محروموں اور مستضعفوں کے مدافع، اور سید شھداء حضرت ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام کے سچے فرزند تھے ـ کی شہادت پر آپ کے تغزیت و تبریک کے پیغامات اور ٹیلگرام موصول ہوئے۔ اسلامی معاشروں کے درد آشناؤں کو ـ وہی جو محرومین اور برہنہ پا انسانوں کے ساتھ میثاق خون باندھ چکے ہیں ـ جان لینا چاہئے کہ ابھی وہ جدوجہد کی اس راہ کی ابتداء میں قدم رکھے ہوئے ہیں اور استعمار و استحصال کے بند توڑنے اور خالص محمدی(ص) اسلام تک پہنچنے کے لئے انہیں طویل راستہ طے کرنا ہے۔ علامہ عارف حسین حسینی کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی بشارت نہیں ہو سکتی تھی کہ محراب عبادت سے اپنے پاک لہو میں غلطاں ارجعی الی ربک کی عروج کا نظارہ کریں اور شہد شہادت سے وصل یار کا جرعہ نوش کریں اور عدل کے ہزاروں پیاسوں کے سرچشمۂ نور تک پہنچ جانے کے گواہ بنیں۔ پاکستان کی شریف اور مسلم قوم ـ، جو بےشک انقلابی اور اسلامی اقدار کی وفادار قوم رہی ہیں، اور ہمارے ساتھ پرخلوص انقلابی، اعتقادی اور ثقافتی رشتوں میں منسلک ہیں، - کو اس شہید کے افکار کو زندہ رکھنا چاہئے اور اسے شیطانی چیلوں کو خالص محمدی(ص) اسلام کا راستہ روکنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔ «میں اپنے عزیز بیٹے سے محروم ہوا ہوں»۔ خداوند تعالیٰ ہم سب کو پہلے سے زيادہ، مصائب جھیلنے کی توفیق اور شہیدوں کے روشن راستے کو دوام بخشنے کی زیادہ سے زیادہ قوت عطا فرمائے اور ستم گروں کی سازشیں اور مکاریاں ان ہی کی طرف پلٹا دے؛ اور اسلام کی باکرامت ملت کو جہاد و شہادت کے راستے میں ثابت قدمی عطا فرمائے۔
صحیفہ امام ج 21 ص 119 و 121.
ہمارا راستہ، سبیلنا کتاب کا نام: ہمارا راستہ ، اختیار کردہ: تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ، پاکستان۔ تقسیم کنندہ: مکتبۃ الرضا لاہور۔
شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی برسی کے ایام ہیں اس موقع پر شہید نے چھ جولائی 1987ء مینار پاکستان پر منشور " ہمارا راستہ، سبیلنا " کا اعلان کیا تھا اسے مطالعہ کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ یہ دستاویز برادر فرخ رضا ترمذی کی لائیبریری سے حاصل کی گئی۔ اس منشور پر شہید حسینی کا آٹوگراف بھی موجود ہے۔ بعض غیر مصدقہ پوسٹیں لگا کر شہید کے افکار و نظریات میں تحریف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کا رد بھی ہے۔
بشکریہ : سید نثار علی ترمذی صاحب
پیواڑ میں شہید عارف حسین حسینی کا مزار
سوشل میڈیا پر شئیر کریں: