Home » Scholars Life » حالات زندگی » مولانا خدا بخش مولائی

مولانا خدا بخش مولائی

حالات زندگی، مولانا خدا بخش مولائی مناظرِ اسلام( اعلیٰ اللہ مقامہ)

حوالہ جات و ماخذ:    

تذکرہ علما امامیہ پاکستان، مولانا سید حسین عارف نقوی ۔
مشاہیرِ شیعت،
محمد باقر نقوی چکڑالوی


تعارف نامہ:


مولانا خدا بخش مولائی (ولادت: 1 شعبان المعظم 1298ھ بمطابق 1885ء – وفات: 22 جمادی الثانی 1387ھ بمطابق 1967ء) عالم دین تھے۔
مولانا خدا بخش مولائی سرائیکی وسیب کے عظیم مرثیہ نگارشاعر اور ڈیرہ اسماعیل خان کے مجددِ عزاداری و عالم دین حضرت مولانا محمود مولائی ؒ کے پانچویں نمبر کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ آپ یکم شعبان المعظم 1298ھ بمطابق 1885 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔
پیدائش:
مولانا خدا بخش مولائی سرائیکی وسیب کے عظیم مرثیہ نگارشاعر اور ڈیرہ اسماعیل خان کے مجددِ عزاداری و عالم دین حضرت مولانا محمود مولائی ؒ کے پانچویں نمبر کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ آپ یکم شعبان المعظم 1298ھ بمطابق 1885 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔
بنیادی تعلیم:
آپ ابھی چار، پانچ سال کے تھے جب آپ کے والد حضرت مولانا محمود مولائی جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نیک پار سا اور دینی و مذہبی علم رکھنے والی خاتون تھیں۔والد کے وصال کے بعد آپ کی تعلیم و تربیت آپکی والدہ نے فرمائی۔ بنیادی اور پرائمری تعلیم کے بعد تاریخ، قران و احادیث و فرامین کے ساتھ ساتھ درس نظامی کے تمام علوم و فنون میں کمال مہارت رکھنے والے مولانا غلام محمد (جامع مسجد لاٹو فقیر کے سب سے پہلے پیش امام) اور مبلغ قران غلام صدیق کے علاوہ اپنے بڑے بھائی مناظر ِ اسلام، محقق مولانا عبدالحق مرحوم سے درس نظامی و قران و احادیث کے ساتھ ساتھ فقہ و منطق اور صرف و نحو کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
فقہی و درسی تعلیم:
مولانا خدا بخش مولائی کی تربیت مذہب تشیع کے فرقے اثناء عشریہ کے عظیم گھرانے میں ہونے کی وجہ سے اپنے علمی خانوادے کے دوسرے افراد کی طرح شوق حصولِ علومِ اہلبیتؑ بے پایاں تھا۔ چنانچہ آپ کے اسی شوق کو دیکھتے ہوئے انیس سال کی عمر میں آپ کے برادران اور والدہ ماجدہ نے ضلع میانوالی کے موضع چکڑالہ سے تعلق رکھنے والے علمی خاندان کے چشم و چراغ اور آپکے ہم عمر محمد باقر نقوی چکڑالوی کے ساتھ1904 میں آپ کو حضرت مولانا شریف حسین کے پاس جگراؤں ضلع لدھیانہ مذید علم حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ وہاں کچھ علم حاصل کرنے کے بعد تھوڑا عرصہ مدرسہ ایمانیہ بنارس مولانا خورشید احمد سے فیض حاصل کیا۔ 1905 میں آپ نے مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں داخل ہو گئے۔ مدرسہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ آیت اللہ العظمیٰ سید نجم الحسن تقوی، معروف بہ نجم الملۃ و نجم العلماء سے آپ نہج البلاغہ کی تفسیر و تشریح کا درس بھی لیتے رہے۔ لکھنؤ سے منشی اور مولوی فاضل و فاضل فقہ وغیرہ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنی مذید علمی تشنگی بجھانے کی خاطر کچھ عرصہ مدرسہ سلیمانیہ، پٹنہ شہر میں مولانا حکیم حافظ سید فرمان علی (مشہورمترجم قران) کے زانو تلمذ رہ کر درسِ و تفسیرِ قران سے استفاذہ اور مناظرہ کے علوم و فنون سیکھتے رہے۔
شادی:
1916 میں اپنے بنیادی اور سابقہ استاد محترم مولوی غلام محمد(مسجد لاٹو فقیر کے پہلے پیش امام) کی بیٹی سے آپ کا عقد کیا گیا، جس کے بطن سے اللہ پاک نے آپکو دو بیٹے مولانا ملک محسن علی عمرانی اور عبدالعلی ناز (آج کربل میں شبیر مہمان ہے جیسے لافانی نوحے کے خالق) اور دو بیٹیوں سے نوازا۔
خطابت:
1909 میں بنارس، لکھنو اور پٹنہ سے علم حاصل کرنے کے بعد آپ جب واپس ڈیرہ اسماعیل خان آئے تو اپنے اجداد کی طرح مرکزی امام بارگاہ امام حسن علیہ السلام (المعروف تھلہ پیر بھورہ شاہ) پر اپنے بڑے بھائیوں کے ساتھ مل کر خطابت کے جوہر دکھانے شروع کئے۔ اس وقت کے مقبول رجحان کو سامنے رکھتے ہوئے مناظرانہ انداز بیان اختیار کیا۔اپنی علمی و فکری وتحقیقی تقاریر کے زریے قرانی ودینی عقائد و اصول کو ملت کے ذہنوں میں راسخ کیا۔اس کے علاوہ ارد گرد کے دوسرے دیہاتوں اور مقامات پر مجالس کا انعقاد کرایا۔ ترویجِ عزاداری کی خاطر ملک کے کونے کونے میں بے لوث اور بغیر کسی مفاد کے مجالس پڑھتے رہے اور تبلیغی و مناظرانہ دورے کرتے رہے۔ خصوصا شاہ گردیز ملتان، شاہ جیونہ جھنگ، لدھیانہ (انڈیا)، میانوالی، کوہاٹ، سرگودھا ، موضع جتوئی ضلع مظفر گڑھ اور شجاع آباد کے علاوہ اپنے ہم مکتب و ہم مدرسہ مولانا سید محمد ہارون زنگی پوری اور خطیب اعظم مولانا سید سبط حسن جائسی کی خصوصی دعوت پر لکھنو کے امام بارگاہ غفران مآب میں بھی کافی مجالس سے خطاب کیا۔ لکھنو کی اسی امام بارگاہ غفران مآب میں ایک مجلس عزا کے بعد مولانا سید محمد داؤد زنگی پوری کے زریے مولانا حافظ فرمان علی کاخصوصی طور پر اپنے دستخط سے مزین اپنا انمول ترجمہ کیا ہوا قرانِ پاک کا نسخہ تحفتاً وصول کیا۔

مشہور مناظرے:

(1)1923 میں کندیاں کے مقام پر ہونے والے یادگار مناظرہ میں مکتب تشیع کی جانب سے مناظر اسلام مولانا مرزا احمد علی امرتسری کے ساتھ آپ اور علامہ سید محمد باقر چکڑالوی بطورمعاون مناظرتھے۔ قران و احادیث کی روشنی میں “ پنجتن پاک ہی اہلبیت ہیں ” ملت تشیع کو سچا ثابت کر کے کے فاتح کہلائے۔ اس یادگار مناظرہ کی تمام تفصیل برصغیر میں اس وقت کے مشہور رسالے “اصلاح” میں چھپتی رہی۔

(2)1925 میں جب ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء نے اذان میں علی ولی اللہ کو اضافی قرار دیتے ہوئے انگریز عدالت میں مقدمہ دائر کیا تو مولانا خدا بخش نے اپنے بڑے بھائی مناظر اسلام مولانا عبدالحق کے ساتھ مل کر عدالت میں انگریز جج کے سامنے کچھ سکے پیش کئے جن پر علی ولی اللہ درج تھا اور قران و احادیث اور اہلسنت کی کتابوں کے ایسے مدلل دلائل لکھ کر پیش کئے کہ مخالف علماء کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، سوائے اس کے کہ اپنی عزت بچانے کی خاطراپنی درخواست واپس لیں۔ بلکہ انگریز جج نے درخواست خارج کرتے ہوئے یہ سنہری الفاظ کہے کہ ” اگر علی ولی اللہ کے مخالفین اپنی درخواست واپس نہ لیتے تو میں ان مدلل دلائل کی روشنی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں موجود ہر مسلک کی مسجد میں علی ولی اللہ کی اذان کو فرض قرار دیتا”۔
(3)1927ء میں مولانا خدا بخش نے پشاور میں سلطان الواعظین سید محمد شیرازی صاحب کے ساتھ مل کر اہلسنت علماء سے مناظرہ کیا اور دشمنانِ اہلبیتؑ کے دانت کھٹے کئے۔اس مناظرے کی روداد ‘‘شب ہائے پشاور” کے عنوان سے شائع ہو چکی ہے۔
(4)1932 میں نواب آف ٹانک نے رنوال کے مقام پر اہل تشیع و اہلسنت کے علماء کے درمیان مناظرہ کا اہتمام کیا۔ اہلسنت کی طرف سے 25 جید علماء اور اہل تشیع کی طرف سے صرف تین علماء آغا سید شرف حسین شاہ (بھکر) اور دونوں بھائی مولانا عبدالحق اور مولانا خدا بخش نے پیش ہو کر مکتب تشیع کا دفاع کیا اور لگاتار تین دن تک یہ علمی مناظرہ جاری رہا۔ آخری دن نواب آف ٹانک نے بطور منصف یہ فیصلہ دیا کہ علماء تشیع نے ایسے مدلل و محکم دلائل پیش کئے کہ مخالفین کے پاس کوئی جواب نہیں اور باقاعدہ شیعہ کے مناظرہ جیتنے کا اعلان کیا۔ اس مناظرہ کے دلائل و تفصیل کو ایک کتاب “ذوالفقار ِ حیدری “ اور مصنف مناظر اسلام مولانا عبدالحق ڈیرہ اسماعیل خان کے نام سے مدرسہ کجھوا، ضلع بہار (انڈیا) سے چھاپا گیا جو آج بھی صاحبان علم و مناظرہ میں کافی مقبول ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان مناظرہ

(5)1937 میں مولانا خدا بخش نے موضع عونث پور تھہیم تحصیل کبیر والا میں اہلسنت کے مدرسہ کے بانی مولانا غلام رسول سے ” امامت و خلافت “ کے عنوان سے مناظرہ جیت کر صحیح معنوں میں بابُ العلم کے شیدائی ہونے کا ثبوت دیا۔ اس مناظرہ کی مکمل تفصیل و دلائل رسالہ “امامت و خلافت” میں موجود ہیں۔

خدمات:

مولانا خدا بخش نے مجالس، تبلیغ، مناظروں کے ساتھ ساتھ دریا خان، کہاوڑ کلاں اور بھکر کی کئی مساجد میں نماز با جماعت کی بنیاد رکھنے کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان میں گھاس منڈی کے اندرمومنین اور خصوصا محلہ شاہین کے عزاداروں کے خصوصی تعاون سے “جعفریہ مسجد” کی بنیاد رکھ کر مسجد تعمیر کرائی اور وہیں پہ کافی عرصہ امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آپ نے ذکر اہلبیت ؑ اور عزاداری ِ امام حسین علیہ السلام کو اپنے اجداد کی طرح بطور پیشہ نہیں اپنایا اور بغیر کسی لالچ و دنیاوی مفاد کے صرف اور صرف خوشنودی آلِ محمد کی خاطر مجالس سے خطاب کرتے اور دینی و ملی خدمات سر انجام دیتے۔ اسی وجہ سے اپنے روزگار کے لیے گھاس منڈی میں موجود جعفریہ مسجد سے متصل دکان میں شیشہ رنگائی اور طب کا کام کرتے اور ساتھ ساتھ وہیں پہ بغیر کسی لالچ کے درس قران ِ بھی دیتے اور تبلیغ حسینیت کا کام بھی کرتے۔ قران، احادیث اور علومِ اہلبیتؑ میں کمال مہارت رکھتے تھے اور درس و تدریس میں انہماک کا یہ عالم ہوتا کہ نماز صبح سے لیکر نماز عصر تک ملت کے بچوں، جوانوں اور بزرگوں کو علوم دینیہ پڑھانے میں مصروف رہتے۔دوسرے مسالک کے علماء و طلباء بطور آزمائش آتے اور ہمیشہ کیلئے دریوزہ ہو کر رہ جاتے۔ اپنے علم، اخلاق، کردار اور پشت پناہی اہلبیت کی وجہ سے آپ نے درجنوں غیر مسالک افراد کو مسلک اہلبیت ؑ میں داخل کرا کے اپنے لئے نجات اخروی کا سامان بنایا۔

رسالہ “ اصلاح“ مناظرہ تفصیل:

دن کی روشنی میں کتابیں پڑھنا اور رات کی تاریکی میں چراغ کی روشنی میں لگاتار تقریریں اور قلمی نسخے لکھنے کی وجہ آخری ایام میں مولانا خدا بخش کی آنکھوں کی بینائی آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئی اور بڑھتی عمر کے ساتھ پیدا ہونے والے صحت کے مسائل کے سبب ان کی بیرونی سرگرمیاں اور تبلیغی دورے بھی محدود ہو گئے۔ لیکن ایسی حالت میں بھی علامہ سید صفدر حسین نجفی صاحب نے 1966میں جامعہ المنتظر لاہور میں جب بطورِ پرنسپل کام کرنا شروع کیا تو اپنے اساتذہ کرام اور دیگر جید علماء کے ساتھ ساتھ مولانا خدا بخش کو بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے خصوصی طور اپنے ساتھ جامع المنتظر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور لے گئے۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے آبائی محلہ گلی کپاس والی میں ایک دکان میں بیٹھ کر تبلیغ دین اور ترویج ِ عزاداری کرتے رہے۔

مولانا محسن علی عمرانی مرحوم کے سب سے چھوٹے بیٹے خطیب اہلبیت وجاہت علی عمرانی نے اپنے دادا مرحوم کے ایک قلمی مقالہ “دارین” کے عنوان کی نسبت سے اپنے بڑے بیٹے کا نام دارین علی عمرانی رکھا، جو الحمد اللہ اپنے اجداد کی طرح عربی فارسی پر مکمل دسترس رکھتا ہے اورایک بلند پایہ نوجوان خطیبِ آلِ محمد ہے۔

تااثرات (مولانا کاظم حسین اثیر جاڑوی۔14دسمبر 1974)

1964 میں جب اپنے والد کی وفات کی وجہ سے جامعہ امامیہ کراچی سے واپس لوٹا تو حجتہ الاسلام علامہ حسین بخش جاڑا کے توسط سے مجھے ان سے شرف ملاقات کا فیض حاصل ہوا۔ کیونکہ مولانا خدا بخش مرحوم علامہ حسین بخش جاڑا صاحب کے استاد ِ محترم علامہ سید محمد باقر نقوی چکڑالوی کے دیرینہ، ہم مکتب اور ہم مدرسہ اور علمی دوست تھے اور اپنا دینی و علمی سفر ان دو شخصیات نے اکٹھا شروع کیا تھا۔ پہلے ملاقات ہی سے مولانا خدا بخش کے علمی مرتبے، قران شناسی، تفسیر پر مضبوط گرفت اور تاریخ و فقہ کے علوم کے علاوہ مناظرانہ اصول و علم پر مکمل دسترس نے مجھے بار بار انکی ملاقات اور ملنے پر مجبور کیا۔مجھے انکی علمی و فکری سرپرستی حاصل رہی اور ہر ہر قدم پر میری علمی رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ ان ملاقاتوں اور نشتوں میں مولانا صاحب کی اس محبت و شفقت اور وسیعُ الظرفی کیوجہ سے میری روح کو جو توانائی اور جلا ملی میں اس کو بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ مولانا خدا بخش ایک ایسے صاحب علم شخصیت تھے جو ہمیشہ سادہ مگر پُروقار لباس اور ہمیشہ سفید عمامہ و پگڑی میں رہتے۔ جن کا ظاہر و باطن اللہ، رسول اور آلِ محمد کی محبت سے سرشار تھا تقویٰ اور پرہیز گاری کے لحاظ سے ایک اعلیٰ و بلند مقام پر فائز تھے۔متقی پرہیز گار اور خوف خدا رکھنے والے ایک موحد زاہد عابد اور پرخلوص عزادارانسان تھے جو دل میں عشق اہلبیت لیے ساری زندگی اشاعت دین متین و ترویج ِ علوم اہلبیت و عزاداری امام حسین علیہ السلام کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہے۔ زبان پہ ہمیشہ ورد کی طرح نہج ُ البلاغہ کا خطبہ متقین رہتا جو کہ امیر المومنین نے اپنے “ہمام” نامی صحابی کی درخواست پر بیان کیا تھا۔ جس میں متقین کی اجتماعی صفات بیان کی گئی ہیں۔

وفات و اولاد:

رئیس المناظرین، عمدۃ العلماء، خطیب اہلبیت، مبلغ دین مولانا خدابخش 22 جمادی الثانی 1387ھ بمطابق 1967ء کو داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس دارُ الفنا سے دارُ البقاء کی طرف رحلت کرگئے اور ڈیرہ اسماعیل خان کے کوٹلی امام حسین علیہ کے قبرستان میں دفن ہیں۔
اولاد
دو بیٹے
مولانا محسن علی عمرانی
شاعر اہلبیت عبد العلی ناز
دو بیٹیاں

چند عکس، و نمونہ قلمی تحقیق

مآب سائٹ پر موجود کتب کا لنک:

مرکز احیاء آثار برصغیر (مآب) کی ویب سائٹ پر موجود کتب کیلئے یہاں کلک کریں۔

حالات ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے۔ یہاں کلک کریں۔

سوشل میڈیا پر شئیر کریں: