Home » Scholars Life » حالات زندگی » علامہ شیخ غلام مرتضی قاضی

علامہ شیخ غلام مرتضی قاضی (قدس سرہ)
آپ نے راولپنڈی کے گاؤں بگرہ سیداں میں آنکھ کھولی اور میٹرک کےبعد ابتدائی دینی تعلیم کے لیے جامعۃ المنتظر لاہور تشریف لے گئے جس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے جامعہ اہلبیت اسلام آباد میں داخلہ لیا جہاں بہت جلد آپ کا شمار ہونہار اور باصلاحیت طلبہ میں ہونے لگا ۔اسی دوران آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجوئیشن کی اور اپنے اُستاد محترم کے مشورے پرمزید تعلیم کے لیے قم (ایران) تشریف لے گئے جہاں آپ نے اعلیٰ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جامعہ المصطفیٰ العالمیہ ایران سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد آپ پاکستان تشریف لائے اور مدرسہ کلیہ اہلبیت ( چنیوٹ) میں پرنسپل شپ کی مسئولیت سنبھالی جسے آپ نے تا دمِ آخر نہایت ذمہ داری اور جانفشانی سے نبھا یا یہاں تک کہ طویل علالت کے بعد اسلام آباد میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔

علامہ شیخ غلام مرتضی قاضی (قدس سرہ)
تعارف:آپ نے 1959 میں ضلع راولپنڈی کے گاؤں بگرہ سیداں میں آنکھ کھولی اور میٹرک کےبعد ابتدائی دینی تعلیم کے لیے جامعۃ المنتظر لاہور تشریف لے گئے جس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے جامعہ اہلبیت اسلام آباد میں داخلہ لیا جہاں بہت جلد آپ کا شمار ہونہار اور باصلاحیت طلبہ میں ہونے لگا ۔اسی دوران آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجوئیشن کی اور اپنے اُستاد محترم کے مشورے پرمزید تعلیم کے لیے قم (ایران) تشریف لے گئے جہاں آپ نے اعلیٰ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جامعہ المصطفیٰ العالمیہ ایران سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد 1988 میں آپ پاکستان تشریف لائے اور مدرسہ کلیہ اہلبیت ( چنیوٹ) میں پرنسپل شپ کی مسئولیت سنبھالی جسے آپ نے تا دمِ آخر نہایت ذمہ داری اور جانفشانی سے نبھا یا یہاں تک کہ 31 مارچ سنہ2020 کو طویل علالت کے بعد اسلام آباد میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔
تعلیم ، استاد، شخصیتبلا شبہ مرحوم ومغفور حجۃ الاسلام علامہ شیخ غلام مرتضی قاضی رحمۃ اللہ علیہ ایک عہد آفریں اور تاریخ ساز شخصیت تھے۔ آپ بیک وقت روحانی پیشوا، دلسوز مربی ، قابل رشک مدیر ،مایہ ناز مدرس ، بہترین مشاور ، معاملہ فہمی کے ماہر ، اتحاد مسلمین کے داعی ، مخلص خطیب ، حق گو ،شجاع اور محب وطن صلح جو رہنما تھے۔دیانت ، شرافت، ایثار، عجز و انکسار جیسی اخلاقی صفات آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں ،وہ عظیم شخصیت ہونے کے باوجود تکبر و غرور سے کوسوں دور تھے۔ ہر چھوٹے بڑے، امیر غریب کی تعظیم اور احترام آپ کی عادت تھی ـ جہدِ مسلسل ، دینی درد، شخصیت وکردار سازی ، اصلاحِ معاشرہ، پاکیزہ افکار و اعمال کی تبلیغ آپ کی شخصیت کےنہایت شگفتہ اور دل آویز پہلو ہیں۔ آپ نے پوری زندگی درس و تدریس، تعلیم و تربیت ، اور وعظ و ارشاد میں گذاری ـ

ہماری نظر میں جو عمدہ خوبی اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ تا دم مرگ ان کا مطیع استاد ہونا ہے ـ مرحوم مقاضی، محسن ملت علامہ شیخ محسن نجفی حفظہ اللہ کے قابل افتخار شاگردوں میں سے تھے اور طالب علمی کے زمانے سے لیکر داعی اجل کو لبیک کہنے تک وہ شیخ صاحب کے فرمانبردار رہے،وہ اپنے استاد کی ہدایت اور راہنمائی کے مطابق پورے اخلاص سے زندگی بھر دینی خدمات میں مصروف رہے ـ یقینا ان کی یہ برجستہ صفت ہمارے لئے قابل تقلید ہے ۔

ہم صنف علماء سے تعلق رکھنے والے ایسے بہت سوں کو جانتے اور پہچانتے ہیں جو کچھ پڑھ لکھ کر جب کسی علمی منزل پر پہنچتے ہیں، تدریس یا خطابت کے میدان جب تھوڑی مہارت حاصل ہوتی ہے اور معاشرہ انسانی میں جب وہ ذرا شہرت پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو نہ فقط وہ اپنے اساتذہ کی محنتوں اور زحمتوں کو بھول جاتے ہیں بلکہ وہ ان کی مخالفت کرنے میں بھی حیا محسوس نہیں کرتے ،وہ اپنے آپ کو روشن فکر سمجھتے ہوئے اپنے اساتذہ کی خدمات کو یکسر طور پر نظر انداز کرتے ہیں بلکہ بعض کو ہم نے یہ تک کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ کر کیا رہے ہیں ؟ وہ دینی خدمات تھوڑی کررہے ہیں وہ تو مدارس کے نام پر اپنی دکان چمکارہے ہیں و۔۔۔ یقینا "یہ بڑا المیہ ہے در حالیکہ ہر باشعور اور فکری تربیت کی نعمت سے مالا مال شخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ اساتذہ کرام نہ فقط شاگردوں کے مربی ہیں بلکہ وہ تو ان کے روحانی باپ بھی ہیں، جن کی عظمت اور مقام بہت بلند ہے ـ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان عالم دھر ہی کیوں نہ بن جائے اگر اس کے دل میں اپنے اساتذہ کا احترام نہ ہو اس کا زوال قطعی ہے ۔ مرحوم علامہ قاضی احترام استاد سمیت معنوی اعلی صفات کے حامل ہونے کے سبب اللہ تعالی نے انہیں اپنی مختصر زندگی میں ایسی دینی خدمات سر انجام دینے کی توفیق دی جو قابل رشک ہے ـ
سماجی و مذہبی خدماتمرحوم قاضی زندگی بھر اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ رہے ـ فرامین معصومین کے مطابق علماء حق انبیاء کے وارث ہوتے ہیں لہذا انہیں انبیاء کی سیرت ،کردار، گفتار ،صفات نیک و ۔۔کا خوگر ہونا ناگزیر ہیں ـ صنف روحانیت کی جہاں فضیلت اور مقام بلند ہے وہیں ان کی ذمہ داریاں بھی دوسرے طبقے کی نسبت سنگین ہیں ـ علماء دین درحقیقت قوم وملت کی ہدایت کا کام سر انجام دینے پر مامور ہوتے ہیں۔ ان کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر حال میں لوگوں کی دینی مشکلات اور مسائل کو حل کرکے انہیں گمراہی کے راستے سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کی کوشش کریں ۔ اسی طرح دینی درسگاہ سنبھال کر قوم کے بچوں کی تعلیم وتربیت کا بیڑا اٹھانا کوئی آسان کام نہیں بلکہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے ـ اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے بعد اب وہ ایک فرد نہیں، بلکہ پوری قوم کی آواز ہے، قوم کی دینی اور اجتماعی دردوں کا معالج ہے،وہ پوری امانت داری اور دیانت داری سے قوم کے بچوں کو تعلیم اور تربیت سے مزین کرکے انہیں مفید انسان بناکر اپنے والدین کے حوالے کرنا ضروری ہے ۔ اس سنگین ذمہ داری کو نبھا کر اپنا شانہ ہلکا کرنا، تعلمی ذمہ داران کے لئے تب ممکن ہے وہ ذیلی امور پر باورقلبی پیدا کریں:

اول: احساس مسؤلیت، یعنی خود کو مسئولت سے مبرا نہ سمجهیں، بلکہ ہر کوئی ہمیشہ اس بات پر دل سے یقین رکھے کہ میں ایک ذمہ دار شخص ہوں، پوری قوم کا مسؤل ہوں،قیامت کے دن مجھ سے پوچھا جائے گا اور وہاں مجھے جواب دینا ہے، دنیوی زندگی فنا پزیر ہے، لیکن آخرت کی زندگی جاودانگی اور لازوال ہے۔
دوم: ہمیشہ اپنے انفرادی مفادات پر قومی دینی واجتماعی مفادات کو مقدم رکھنے کی عادت کریں، کھبی بھی ذاتی مفادات پر دینی اور اجتماعی مفادات کو قربان نہ کریں۔
سوم: اس اصول کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہیں، اس کو دوسروں کے لئے بھی پسند کریں اور جن چیزوں کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہیں، ان کو دوسروں کے لئے بھی پسند نہ کریں۔چہارم: اس پر ایمان رکھیں کہ ساری بشریت ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ہم سب کا مالک حقیقی خدا ہے اس ارض خدا پر سب کو جینےکا حق ہے امیر ہو یا غریب, مسلم ہو یا غیر مسلم۔پنجم: لسانی، علاقائی، خاندانی و تعصب ایک منفورشی ہے، جس سے اپنے کو دور رکھنا بے حد ضروری ہے ـ ششم: دین مقدس اسلام میں برتری اورفضیلت کا معیار صرف اور صرف تقوی اور پرہیزگاری ہے اس کے علاوہ برتری کا کوئی معیار نہیں۔ہفتم: غرور و تکبر شیطان کی ممتاز صفات ہیں، ان سے حتی الامکان پرہیز کرنا بہت ضروری ہے۔ہشتم : انسان کو کرسی، منصب، مال و دولت خدا آزمائش کے لئے عطا کرتا ہے،
بدون تردید علامہ قاضی مرحوم نے اس حساس ذمہ داری کو قبول کرکے اسے بوجہ احسن نبھانے میں کردار ادا کیاـ آپ اپنی مخلصانہ جدوجہد کے نتیجے میں جن اداروں کو ملت کے لئے سرمایہ اور اپنے لئے صدقہ جاریہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ان کا اجمالی خاکہ کچھ اس طرح سے ہے۔
(1) پاک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ :

قوم و ملت کے بچوں کو ہنر سکھانےاور انہیں معاشرے کا مفید حصہ بنانے کے لیے مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ ہمیشہ فکر مند اور سرگرم عمل رہتے ہیں چنانچہ 2003 میں پاک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کا قیام بھی آپ کے اسی مشن کا آئینہ دار ہے جہاں مختلف شعبہ جات کی ورکشاپس اور ضروری آلات کے ذریعے بچوں کو ہنر مند بنانے کا عمل کامیابی سے جاری ہے۔اس ادارے سے اب تک 1800 سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم مکمل کر کے باعزت روز گار سے وابستہ ہو چکے ہیں جبکہ حکومت پنجاب کے تعاون سے اب تک 4200 طلبہ و طالبات مختلف شعبہ جات کے شارٹ کورسز مکمل کرنے کے بعد قوم و ملک کی خدمت میں مصروف ہیں۔

(2) کلیۃ اہلبیت :

مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی مدظلہ العالی کی مساعی جمیلہ سے 1987 میں قائم ہوا یہ مدرسہ 24کنال رقبے پر محیط ہے جس کا ایک حصہ طلبہ کے لیے جبکہ دوسرا حصہ دانشگاہ بتول برائے طالبات کے لیے مختص قرار پایا اور علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور 1988 میں اس کی مدیریت سنبھالنے کے بعد تادمِ آخر اپنی مسؤلیت کو با احسن خوبی نبھاتے رہے۔اس مدرسے میں اس وقت 10 اساتذہ کرام کی زیر نگرانی کم و بیش 100 طلبہ اقامت پذیر ہیں جنہیں حوزوی تعلیم کے ساتھ ساتھ انٹر میڈیٹ اور کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔

(3) تعمیر مساجد پراجیکٹ :

اسلامی معاشرے میں مساجد کے قیام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ متبرک مقام دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں مقام و منزلت کا حامل ہے جبکہ مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ اپنے تمام دینی و فلاحی اداروں کے قیام میں تعمیر و توسیع مساجد کو ہمیشہ فو قیت دیتے ہیں پس اسی پالیسی کے تحت علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور نے اپنی زندگی میں مختلف جگہوں پر مساجد کی تعمیر کو ممکن بنایا جن میں شہر چنیوٹ کی مرکزی جامع مسجد صاحب الزمان بھی شامل ہے جہاں 2000 سے زائد افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے جبکہ یہ مسجد ادایئگی نماز جمعہ المبارک سمیت دروس قرآن ، محافل و مجالس اور قومی و ملی سرگرمیوں کا مرکز ہے اس کے علاوہ مختلف مقامات پر 15 مساجد کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے جہاں نماز کے علاوہ قرآن سنٹر ز بھی قائم ہیں جن میں اِن علاقوں کے بچے قرآن اور بنیادی عقائد کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

(4) قرآن سنٹرز:

چینیوٹ کمپلیکس کے اس پراجیکٹ سے 100 سے زائد پیش نماز مربوط ہیں جو مختلف علاقوں میں100قرآن سینٹرز چلا رہے ہیں جن میں ہزاروں بچوں کو ناظرہ قرآن مجید اور دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔قرآن سنٹرز کے یہ طلبہ وقتاً فوقتاً مقابلہ حسن قرائت اور اسلامی کیوز کے پروگرامز میں بھی شرکت کرتے ہیں۔

(5) حفظ القرآن ماڈل سکول :

دور حاضر کی آلودہ فضاء میں سانس لینے والی نئی نسل میں قرآن مجید سے دوری معاشرتی زوال کا بنیادی سبب ہے جسے دور کرنے ،قرآن فہمی کا شعور اُجاگر کرنے اور نئی نسل کو قرآن حفظ کرانے کے لیے 2007 میں حفظ القرآن ماڈل سکول کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس ادارے میں قرآن مجید حفظ کرانے اور اس کے مفاہیم ذہن نشین کرانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حفاظ کی قابل ذکر تعداد کو چھٹی تا مڈل کلاس کی عصری تعلیم سے بھی بہرہ مند کیا جا رہا ہے۔تا حال 427 طلبہ حفظ مکمل کر کے دیگر اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔

(6) دانشگاہ بتول :

مومن بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے اور اُن کی عمدہ تربیت کے لیے دانش گاہ بتول کا قیام ایک انقلاب آفریں قدم ہے 1990 سے قائم اس ادارے میں دختران ِ قوم کی ایک بڑی تعداد دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب تعلیم سے بھی بہرہ مند ہو رہی ہے ۔ جبکہ سینکڑوں بچیاں اب تک فارغ التحصیل ہو کر معاشرے میں اسلامی قدروں کو فروغ دے رہی ہیں ۔دانشگاہ بتول میں طالبات کے لیے بہترین صحت مند ماحول اور سہولیات کو یقینی بنایا گیا ہے جہاں اس وقت 8 خاتون اساتذہ کی زیر نگرانی ایک سو سے زائد طالبات اقامت پذیر ہیں ۔

(7) کلیۃ العباس بھوانہ:

بھوانہ جیسے دور دراز علاقے میں اس دینی مدرسے کا قیام 2005 میں عمل میں لایا گیا جہاں اس وقت 40 طلبہ اقامت پذیر ہیں جنہیں دینی و عصری تعلیم دی جا رہی ہے جبکہ یہ ادارہ بھوانہ اور اس کے گردونواح کے عوام کے لیے دینی و شرعی مسائل سے آگاہی کا واحد مرکز ہے ۔

(8) دینی مدرسہ برائے طالبات :

پنڈی بھٹیاں میں ایک دینی مدرسہ طالبات کی دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔

(9) اُسوہ کالج بھوانہ :

چنیوٹ کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے بھوانہ میں طلبہ و طالبات کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے کلیہ اہلبیت کی زیر نگرانی اس تعلیمی ادارے کا قیام 2018 میں عمل میں آیا ۔ اس وقت اس ادارے میں 350 طلبہ و طالبات کو محنتی اور تجربہ کار اساتذہ کرام کی زیر نگرانی ایف اے ۔ ایف ایس سی ۔ آئی سی ایس اور آئی ٹی کی تعلیم دی جار ہی ہے۔

(10) خدیجۃالکبریٰ ہسپتال :

صحت کی سہولت دور حاضر کی اولین ضرورت ہے اسی اہمیت کے پیش نظر فیصل آباد چنیوٹ مین روڈ پر 50 بستروں پر مشتمل اور جدید سہولیات سے آراستہ خدیجۃ الکبریٰ ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں6 مستند ڈاکٹرز کی زیر نگرانی علاج معالجے اور ادویات کی فراہمی سمیت ہر قسم کے آپریشن اور نارمل ڈلیوری کی سہولت موجود ہے ۔ اس ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے ۔ خدیجۃ الکبریٰ ہسپتال میں وقتاً فوقتاًمفت میڈیکل کیمپس کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے جن میں مریضوں کو مفید مشوروں اور علاج معالجے کی سہولت مہیا کی جاتی ہے ۔

(11) علی ہسپتال رجوعہ سادات:

رجوعہ سادات میں 4 کنال رقبہ پر مشتمل علی ہسپتال کا قیام علاقے کی طبی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس ہسپتال کی تعمیر حال ہی میں مکمل ہوئی ہے اور اس وقت یہاں تجربہ کار ڈاکٹرز کی زیر نگرانی گائنی ، آنکھوں کے علاج اور میڈیکل کے دیگر شعبہ جات کے ذریعے دکھی انسانیت کی شبانہ روز خدمت کی جارہی ہے ۔

(12) پیرا میڈیکل کالج :

اس ادارے کا شمار پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کے بعد چنیوٹ کمپلیکس کے فعال ترین اداروں میں ہوتا ہے جہاں طلبہ و طا لبات کی ایک بڑی تعداد کو طبی شعبے کی خدمات کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور انہیں ڈسپینسر ، ٹیکنیشن ، لیب ٹیکنیشن اور آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن کی تعلیم دی جاتی ہے اب تک 250 طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو کر مختلف ہسپتالوں و دیگر اداروں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

(13) فارمیسی کالج :

یہ ادارہ دوا سازی کے میدان میں سرگرم عمل ہے اور پیشہ وارانہ تربیت کے حوالے سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے ۔جہاں پاکستان فارمیسی کونسل کے تحت فارمیسی ٹیکنیشن کی تعلیم دی جاتی ہے اور تعلیم کی تکمیل کے بعد کامیاب فرد میڈیکل سٹور کے لیے لائسنس حاصل کر سکتا ہے ۔ اب تک 100 طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو چکے ہیں ۔

(14) نرسنگ کالج :

نرسنگ کالج چنیوٹ کمپلیکس کا ذیلی ادارہ ہے جہاں لیڈی ہیلتھ وزیٹر(LHV) اور سرٹیفائیڈ نرسنگ اسسٹنٹ (CNA)کے تربیتی کورسز کامیابی سے چلائے جارہے ہیں۔

(15) فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد :

کلیہ اہلبیت کی زیر نگرانی چینوٹ کے دور افتادہ و پسماندہ علا قوں میں وقتاً فوقتاً فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں میڈیسن کے علاوہ فری ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں ۔ ان میڈیکل کیمپس کے علاوہ ان علاقوں کے ہونہار طلبہ کو سکالرشپ ، کتب ، یونیفارم اور بیوگان کو ماہانہ راشن بھی فراہم کیا جاتا ہے۔

(16) ورچوئل سب کمپلیکس :

یہ ادارہ جدید برقیاتی تدریس کے آلات سے لیس ہے جہاں یونیورسٹی سطح کے طلباء کو علوم اداریہ، علوم تجاریہ ،اقتصادیات بینکاری، مالیات، ریاضیات، نفسیات کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور دیگر مضامین میں بی ایس اور ایم ایس کرنے کی سہولت میسر ہے اس وقت 4200 سے زائد طلبہ و طالبات ڈگری و ماسٹر لیول کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ 450 طلبہ و طالبات اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔درج بالا کامیاب اداروں کا قیام اور قومی و ملی سرگرمیوں میں متحرک کردار مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی محنت و تربیت اور علامہ قاضی غلام مرتضی مرحوم و مغفور کے اخلاص عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم نے فیصل آباد میں اپنی تعلیمی زندگی کے دوران مرحوم علامہ قاضی کی برجستہ صفات اور خصوصیات کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ہم ان کی چند ایک خدمات سے آگاہ تھے لیکن اس مضمون کو لکھنے کے لئے جب ان کے فرزند ارجمند علامہ شیخ علی رضا قاضی سے استفسار کیا تو انہوں نے مرحوم کی خدمات کے حوالے سے مذکورہ نکات سے آگاہ کیا ـ ہماری دعا ہے خدا علی رضا قاضی کو اپنے بابا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پورے اخلاص سے ان کے دینی مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق دے اور علامہ قاضی مرحوم کی مغفرت فرما کر انہیں جوار ائمہ میں جگہ عنایت فرمائے ( آمین )
حوالہ جات
تحریر : محمد حسن جمالی
سوشل میڈیا پر شئیر کریں: