Home » وہ اک دیے سے نہ جانے کتنے دیے جلا کر چلاگیا ہے

وہ اک دیے سے نہ جانے کتنے دیے جلا کر چلاگیا ہے
تحریر: امداد علی گھلو

تحریک پاکستان کے گولڈمیڈلسٹ، بھکر کنونشن کے بانی، بابائے تحریک ،ممتاز شخصیت اور شیعہ علما کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدرجناب سید وزارت حسین نقوی ایڈووکیٹ ۱۷/ستمبر۱۹۲۵ء میں سہارن پور ،یوپی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۰ءمیں جب قائداعظم کی قیادت میں قافلہ سہارن پور سے گزرا تو انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کو استقبالیہ کا ہار پہنایا۔﴿بھکر ٹائمز﴾
مرحوم سید وزارت حسین نقوی کا خاندان بھارت سے ہجرت کرکے بھکر میں سکونت پذیر ہوا۔ آپ بنیادی طور پر وکالت کے پیشہ سے منسلک تھے۔ اس پیشے میں آپ ایک ممتاز مقام رکھتے تھے؛ قانونی معاملات کے علاوہ سیاست میں بھی کافی اثر رکھتے تھے۔ دینی کاموں میں ہمیشہ پیش قدم رہے۔ بھکر میں شاندار مرکز “قصر زینبؑ ” کے نام سے تعمیر کروایا، جو علاقہ کی مذہبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ قومی اجتماعات کا بھی مرکز بنا رہا ہے۔ اس مرکزکے تمام معاملات کی نگرانی آپ آخر دم تک کرتے رہے ہیں۔ اس میں مسجد، امام بارگاہ اور تنظیموں کے دفاتر بھی قائم رہے ہیں۔
جب جنرل ضیاءالحق نے اسلامائزیشن کا اعلان کیا اور بعض مبہم اعلانات کئے جن سے اہل تشیع میں خدشات پیدا ہوئے کہ ان پر ایک مخصوص فقہ اور نظریات مسلط کئے جا رہے ہیں۔ اس طرح قانون سازی میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے ۱۲/ اپریل۱۹۷۹ء کو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کی بنیاد ڈالی گئی۔ بھکر کی سرزمین پر تشکیل پانے والے اس متحدہ قومی پلیٹ فارم کے کنونشن کے بانی جناب سید وزارت حسین نقوی ایڈووکیٹ مرحوم تھے۔ آپ ایام نوجوانی سے ہی اجتماعی اور قومی سوچ کے حامل تھےکہ آپ نےتحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
سید وزارت حسین نقوی کی مینجمنٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھو ں نے ۱۹۷۹ء میں منعقد ہونے والے تاریخ پاکستان میں شیعیان حیدر کرار کے سب سے بڑے اجتماع کو بطریق احسن مینج کیا۔ ایک اندازے کے مطابق شرکاء کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ تھی؛ بی بی سی لندن کے بقول آیت اللہ خمینی👧 کے بعد مفتی جعفر حسین👧 جنوبی ایشیا کے دوسرے بڑے روحانی پیشوا تھے کہ جنہیں عوام کی اتنی بڑی تعداد نے ووٹ دیا۔﴿ خورشید خاور،صفحہ۱۱۸﴾
تحریک کے دستور کی تدوین میں آپ کی کاوشیں اور محنت کارفرما تھیں؛۲۰؛/ اپریل ۱۹۷۹ء کو گوجرانوالہ شہر میں تحریک کا ضابطہ اور آئین تشکیل دینے کے لئے جن چھ افراد کا انتخاب کیا گیا ان میں ایک سید وزارت حسین نقوی تھے۔ ﴿ سفیر نور،صفحہ۷۳﴾
تحریک کے چھ اکابرین علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم، علامہ مرزا یوسف حسین مرحوم، علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم، آیت اللہ شیخ محمد حسین نجفی، علامہ ملک اعجاز حسین نجفی اور سید وزارت حسین نقوی ایڈووکیٹ پر مشتمل وفد نے ۵/ مئی ۱۹۷۹ء کو ضیاء الحق سے ملاقات اور طویل مذاکرات کئے۔ ہر شخص اپنے اپنے انداز میں اپنا موقف پیش کر رہا تھا۔ جب سید وزارت حسین نقوی ایڈووکیٹ کو لب کشائی کا موقع ملا تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں ضیاءالحق سے مخاطب ہو کر کہا:”صدر محترم میں محب وطن پاکستانی اور سچا مسلمان ہوں۔ آپ کے نظام مصطفی کے اعلان سے ہم خوش تو ہوئے مگر آپ کی پیش کردہ تشریحات نے ملت جعفریہ کے ہر پیر و جوان کو احساس محرومی میں مبتلا کر دیا ہے کہ آپ پاکستان کو سنی اسٹیٹ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔”
ابھی وزارت حسین نقوی کے چند جملے باقی ہی تھے کہ ضیاءالحق کی پیشانی پر بل پڑے اور اس نے غصے میں کھڑے ہو کر کہا:”مسٹر نقوی آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اگر ایسی تشریحات ہیں بھی سہی تو کیا ہوا، میں کوئی سکھستان بنا رہا ہوں۔”؟ ضیاءالحق اس حالت میں شاید کچھ اور کہنا چاہتے تھے مگر وزارت حسین نقوی نے پھر مداخلت کی”صدر محترم، پاکستان اسلامی ریاست ہے، فقہی ریاست نہیں؛ ہم قطعا اپنی فقہ پر کسی دوسری فقہ کا تسلط برداشت نہیں کریں گے۔” ﴿ سفیر نور،صفحہ۷۵﴾
صدر نے تحریک کے وفد سے ملاقات کے بعد وعدہ کیا کہ وہ ۹/ مئی ۱۹۷۹ء کو کراچی کی پریس کانفریس میں اہم اعلان کریں گے۔ ملاقات اختتام کو پہنچی تو حکومت نے تحریک کے چھ اکابرین کو ٹی۔ اے، ڈی ۔اے کی پیش کش کی جسے اکابرین نے ٹھکراتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی جماعت کی نمائندگی کرنے آئے تھے کوئی سرکاری مہمان نہیں تھے۔ ﴿ ایضاً،صفحہ۷۶﴾
تحریک کو مضبوط بنانے اور اس کے امور میں آپ نے خصوصی دلچسپی لی، آپ تحریک کے ہر اجلاس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے اور ہر موقع پر اپنی رائے کا بے باک اظہار فرمایا۔
مفتی صاحب کی وفات کے بعد مسئلہ اصولی قیادت اور ان کے دستوری جانشین کا تھا؛ قوم کے اذہان سے قائد کے وجود سے محرومی کا احساس زائل کرنے اور دستوری ذمہ داریاں نبھانے کے لئے سید وزارت حسین نقوی ایڈووکیٹ نے تحریک کی سپریم کونسل اور مجلس عاملہ کے اراکین کو تعزیتی اور دعوت فکر دینے والا خط لکھا جس میں تحریر تھا:”اس پر آشوب دور میں آپ اراکین کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنی اولین فرصت میں مفتی صاحب کے حقیقی جانشین کا انتخاب کرکے قوم کی موجودہ بے چینی اور مایوسی کو دور کریں تا کہ مفتی صاحب کا مشن جاری اور ملت جعفریہ کے حقوق کا تحفظ قائم رہے۔” ﴿ ایضاً،صفحہ۸۵﴾
پانچ اراکین مجلس عاملہ پر مشتمل کمیٹی میں سے مکمل طور پر دو رکن آیت اللہ شیخ محمد حسین نجفی اور سید وزارت حسین نقوی نے ہی تمام صوبوں میں اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔ ﴿ ایضاً،صفحہ۸۶﴾
دستوری تقاضے ابھی تشنہ ہی تھے کہ جناب حامد علی موسوی صاحب کی قیادت کی خبر اخبارات نے شائع کر دی۔ ۱۹جنوری ۱۹۸۴ء کو لاہور کے مقامی ہوٹل “لارڈ” میں سید وزارت حسین نقوی نے پریس کانفرنس کی۔ انھوں نے بتلایا کہ تحریک کی مرکزی کونسل کا قیام عمل میں آ چکا ہے جس کا ۱۰/ فروری۱۹۸۴ء کو بھکر میں اہم اجلاس ہو گا اور یہاں تحریک کی آئندہ قیادت کا آئین کے تحت انتخاب کیا جائے گا۔ ﴿ ایضاً،صفحہ۸۸﴾
دس فروری کی صبح قصر زینب بھکر میں تحریک کی سپریم کونسل اور مرکزی کونسل کا اہم ترین اجلاس باقاعدہ دستور کے تحت منعقد ہوا۔ کچھ شخصیات پر اشکال وارد ہونے کے علاوہ علامہ سید صفدر حسین نجفی کے قومی قیادت کو سنبھالنے سے بلا تامل معذرت کرنے کے بعد سید وزارت حسین نقوی نے مجاہد عالم دین علامہ سید عارف حسین الحسینی کا نام قیادت کے لئے پیش کیا تھا۔ قائد شہیدمذکورہ کونسلز کی مکمل حمایت اور اعتماد کے بعد قائد مرحوم کے جانشین منتخب ہوئے ۔ (تحریک کے دستور کی ارتقائی تاریخ، سید وزارت حسین نقوی ایڈووکیٹ، نقل از ماہنامہ تحریک،صفحہ۳۱،جنوری ۱۹۹۶؛ سفیرنور،ص۹۱، اشاعت دوم۱۹۹۸)
تنظیمی تقاضوں کے پیش نظر قائد شہید نے اپنی مرکزی کابینہ کا اعلان کیا تو اس میں سید وزارت حسین نقوی کو تحریک کا مرکزی جنرل سیکرٹری اور ڈاکٹر محمد علی نقوی کو جوائنٹ سیکرٹری کی ذمہ داری سونپی۔ ﴿ سفیرنور،صفحہ۱۰۶﴾
مورخہ ۲۵ جولائی ۱۹۸۴ء کو قائد شہیدؒ نے مندجہ ذیل اراکین پر مشتمل ایک “دستور کمیٹی” بنائی کہ تحریک کے آئین کو جدید تقاضوں کے تحت ترمیم کرنے کے لئے اپنی سفارشات مرتب کرے۔ اس کمیٹی میں بھی آپ شامل تھے۔
۱۔ علامہ سید ساجد علی نقوی (کنوینئر) ۲۔علامہ حافظ ریاض حسین نجفی(رکن) ۳۔علامہ شیخ محسن علی نجفی(رکن) ۴۔علامہ رضی جعفر نقوی (رکن) ۵۔ علامہ محمد جواد صاحب (رکن) ۶۔ سید وزارت حسین نقوی ایڈووکیٹ (رکن) ۷۔ڈاکٹر محمد علی نقوی (رکن) ۸۔سید امام علی شاہ کاظمی (رکن) ۹۔سید امداد حسین ہمدانی (رکن) ۱۰۔سید مصطفیٰ حیدر نقوی (رکن) ۱۱۔ اعجاز رسول نگری ایڈووکیٹ (رکن) ؛ (تحریک کے دستور کی ارتقائی تاریخ، سید وزارت حسین نقوی ایڈووکیٹ، نقل از ماہنامہ تحریک،صفحہ۳۱،جنوری ۱۹۹۶ء)
ایم آرڈی کے اکابرین سے بحالی جمہوریت کے حوالے سے تحریک کے جس وفد نے گفت و شنید کی تھی اس میں سید وزارت حسین نقوی بھی شامل تھے۔﴿ تحریک کا سیاسی سفر،صفحہ۴۱ ﴾ اور قرآن و سنت کانفرنس میں پیش کرنے کے لئے منشور تیار کرنے کرنے کے لئے جو منشور کمیٹی تشکیل دی گئی اس میں بھی آپ شامل تھے۔ ﴿ تحریک کا سیاسی سفر،صفحہ۵۰﴾
قائد شہید نےعملی سیاست میں شرکت کرنے کے حوالے سے علمائے کرام اور ممتاز شیعہ شخصیات سے ملک بھر سے آراء لیں تو سید وزارت حسین نقوی ایڈووکیٹ نے ایک مقالہ “ہمارے مطالبات، پس منظر، پیش رفت، تجاویز” لکھ کر اپنی نظر کچھ یوں بیان فرمائی:
“ملت جعفریہ کی بدقسمتی ہے کہ سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھ کر ہم نے اس کے نزدیک جانے کی کوشش نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم احتجاج کی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ قرار دادیں منظور کرنا ہمارا مقدر اور مطالبات ہمارا قومی نشان بن گئے ہیں۔ہمارے اذہان میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ حکومت حاصل کرنا ہمارا شعار نہیں، سیاست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، حکومت کی تشکیل سے ہمارا کوئی سروکار نہیں۔ ہمارا کام صرف عبادت کرنا، مذہبی رسوم ادا کرنا اور اگر کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے تو مطالبہ یا قرارداد منظور کرنا ہے۔ یہ وہ عمل تھا کہ جس سے ہم بے عمل ہو کر رہ گئے ہیں۔ ملکی سطح پر ملت جعفریہ کی کوئی آواز نہ رہی اور جب کبھی قومی سرگرمیوں میں سیاست کی بات کی تو اس پر کسی نے توجہ نہ دی، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اجتماعی سیاسی قوت حاصل کئے بغیر ہم مضبوط شہری نہیں بن سکتے اور اس کمزور کیفیت میں ہمارے حقوق کسی وقت بھی چھینے جا سکتے ہیں۔”
انھوں نے اپنے مقالہ میں مزید لکھا :
” اگر تحریک، ملت شیعہ کی صحیح خدمت کرنا چاہتی ہے اور ملت جعفریہ اپنے حقوق کی بحالی اور مطالبات کا حصول چاہتی ہے تو ہمیں اس ملک میں ایک سیاسی قوت بن کر ابھرنا ہوگا۔ اپنے حقوق کی بحالی چاہتے ہیں تو ہمیں راہب کا نہیں بلکہ مجاہد کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایوان حکومت میں شرکت کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ ماضی کی پالیسی ترک کر کے مذہبی اور دینی لائحہ عمل کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط سیاسی لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا۔ تحریک کو اپنے منشور کے پیش نظر ملت جعفریہ کو فوری طور پر سیاسی قوت بننے کے لئے ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کرنا چاہئے جس کا خاکہ کچھ اس طرح ہو سکتا ہے:
الف۔ تحریک کے ذیل میں ایک آزاد سیاسی شعبہ فوری طور پر قائم کیا جائے جس کا کوئی مناسب نام تحریک کے علاوہ تجویز کیا جائے۔
ب۔تحریک کا یہ سیاسی شعبہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ قائم کرے، اشتراک عمل قائم کرے، درسگاہوں سے نکل کر موچی دروازہ، نشتر پارک اور قصہ خوانی بازار میں سیاسی جلسے منعقد کرے۔
ج۔ ملت پاکستان کو معاشی، فلاحی،سماجی اور معاشرتی پروگرام پیش کرے۔
د۔ تحریک کے سیاسی شعبہ پر اشتراک عمل کے لئے دائیں یابائیں بازو کے امتیاز سے بالا تر ہو کر کام کیا جائے۔
س۔ تحریک کا یہ سیاسی شعبہ ملک کی دیگر جماعتوں سے انتخابی اتحاد کرے اور اس طرح پارلیمنٹ میں اپنے حقوق کا تحفظ کرے۔ ﴿ تحریک کا سیاسی سفر،صفحہ۲۳تا۲۵، تاریخ اشاعت ۱۹۸۷ء ﴾
۵/ جولائی ۲۰۰۹ء کو اسلام آباد میں قائد ملت کی صدارت میں علما کانفرس کا انعقاد ہوا جس میں سید وزارت حسین نقوی نے اپنے احساسات کا اظہار کچھ یوں کیا:
گرتی گئی جو راہ وفا میں لہو کی بوند
ہر اک قدم پہ شمع جلاتی چلی گئی
تحریک جعفریہ پر۲۰۰۲ء میں ایک ڈکٹیٹر نے پابندی لگائی آج سات سال کا عرصہ گزر چکا ہے موجودہ حکومت جنرل مشرف کے کاموں کو غلط کہہ رہی ہے اگر جنرل مشرف کے تمام اقدامات غلط تھے تو تحریک جعفریہ پر پابندی کا قدم بھی غلط تھا۔ لہذا منطقی بات ہے کہ تحریک جعفریہ کو بحال کیا جائے۔ ﴿ علما کانفرنس،رپورٹ ،دفتر قائد ملت جعفریہ پاکستان،صفحہ۱۸﴾
۲۰۱۲ء میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں انھوں نے فرمایا:
“ملک کا صدر، وزیراعظم اور سب سن لیں کہ ملت جعفریہ کو کبھی دیوار سے نہیں لگایا جا سکتا۔” ﴿ خطاب سے اقتباس﴾
سید وزارت حسین نقوی قائدین کے ساتھ شانہ بشانہ رہے اور نظام قیادت کے ساتھ ہمیشہ وفادار رہے، آپ اعلی پایہ کے قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ توانا قومی رہنما،بابصیرت،شجاع، اور سنجیدہ شخصیت تھے۔ ان کی زندگی اخلاص اورجہد مسلسل کا نام ہے ؛ شجاعت سے قومی موقف کو ہر جگہ آگے بڑھایا؛ قیادت کے ساتھ وابستگی ان کا طرۂ امتیاز رہا ،مشکل ترین حالات میں بھی ان کے قدم کبھی نہیں لڑکھڑائے؛ اپنے قومی حقوق کے تحفظ میں ہمیشہ سینہ سپر رہے ۔ مرحوم دشمن کی سازشوں کا ادراک رکھتے ہوئے ان کا دلیرانہ تدارک کرتے رہے۔ علاقائی حوالے سے بھی مرحوم کی خدمات لائق تحسین ہیں؛ مختلف مناسبتوں کے مواقع پر فرقہ پرستوں کی وجہ سے حالات خراب ہوئے تو ان کا وہاں کے بگڑتے ہوئے حالات کو بروقت کنٹرول کرنا اور مسلسل عوام کے ساتھ شانہ بہ شانہ میدان عمل میں رہنے کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
آج ملک و ملت ایک امن پسند قانونی، علمی، سیاسی، مذہبی، ثقافتی اور سماجی شخصیت سے محروم ضرور ہوئے ہیں لیکن
ہوا کے رخ پہ چراغ الفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے
وہ اک دیے سے نہ جانے کتنے دیے جلا کر چلاگیا ہے

سوشل میڈیا پر شئیر کریں: